یہ تیرے پر اسرار بندے

اس کے دماغ میں انجیل مقدس کے الفاظ گونج رہے تھے ، ’’ بدن میں ایک ہی عضو نہیں ، بلکہ بہت سے ہیں ، اگر پاؤں کہے چونکہ میں ہاتھ نہیں اس لیے بدن کا نہیں ، تو وہ اس سبب سے بدن سے خارج تونہیں ، اور گر کان کہے چونکہ میں آنکھ نہیں اس لیے بدن کا نہیں، تو کیا وہ بدن سے خارج ہوگیا؟ نہیں ، اگر سارا بدن آنکھ ہی ہوتا تو سُننا کہاں سے ہوتا ؟ اگر سُننا ہی سُننا ہوتا تو سونگھنا کہاں ہوتا ؟ مگر فی الواقع خدا نے ہر ایک عضو کو بدن میں اپنی مرضی کے موافق رکھا ہے ۔ اگر وہ سب ایک ہی عضو ہوتے تو بدن کہاں ہوتا ؟ مگر دیکھو ، اعضا تو بہت ہیں لیکن بدن ایک ہی ہے ۔ پس آنکھ ہاتھ سے نہیں کہہ سکتی کہ میں تیری محتاج نہیں ، اور نہ سر پاوں سے کہہ سکتا کہ میں تمہارا محتاج، بلکہ بدن کے وہ اعضا جو اوروں سے کمزور ہوتے ہیں ، بہت ضروری ہوتے ہیں ، اور بدن کے وہ اعضا جنھیں ہم اوروں کی نسبت ذلیل جانتے ہیں ان ہی کو زیادہ عزت دیتے ہیں اور ہمارے نا زیبا اعضا بہت زیادہ زیبا ہوجاتے ہیں حالانکہ ہمارے زیبا اعضا محتاج نہیں ، مگر خدا نے بدن کو اس طرح مرکب کیا ہے کہ جو عضو محتاج ہےاسی کو زیادہ عزت دی جائے ، تاکہ بدن میں تفرقہ نہ پڑ ے ، بلکہ اعضا ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں ۔ ‘‘
اس نے ایک بار اپنے آپ کا جائزہ لیا ، آسمان کی طرف دیکھا ، یہ دُنیا نہ صرف بچوں سے ہے ، نہ صرف نوجوانوں سے ، نہ صرف بوڑھوں سے ، یہ سب بھی ایک طرح کا جسم ہیں ۔ پھر بڑھاپا نازیبا کیوں ؟
وہ آہستہ آہستہ قدماٹھا رہا تھا ۔ چاروں طرف ملگجی اندھیرا پھیلا ہوا تھا ، اور سرد ہوائیں چل رہی تھیں ۔اس نے نظریں سامنے کیں ،اس کی طرح بہت سارے افراد بھی مارننگ واک کے لیے نکلے ہوئے تھے ۔ کوئی سست قدم تھا ۔ کوئی تیز تیز چل رہا تھا ۔ کچھ عمر رسیدہ لوگ تھے ۔ جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اور وہ کچوے کی چال سے مارننگ واک کا لطفاٹھا رہے تھے ۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ وہ ایک مہینہ پہلے ہی کلکٹر کے باوقار عہدے سے سبکدوش ہوا تھا ، اوراس کے دماغ میںاس کی ملازمت کا پہلا دن تھا جب وہ اپنے آفیس کو جانے سے پہلے چرچ گیا تھا اور انجیل مقدس پر ہاتھ رکھے فادر کہے رہے تھے ، ’’ تم زمین کا نمک ہو ، لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہا تو وہ کس چیز سے نمکین کیا جائے گا ؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں ، سوائے اس کے کہاسے باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے ۔ تم دُنیا کا نور ہو ، جو شہر پہاڑ پر بسا ہو وہ چھپ نہیں سکتا ، اور چراغ جلاکر پیمانے کے نیچے نہیں بلکہ چراغ دان کے اوپر رکھتے ہیں تاکہ اس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچے ۔ اسی طرح تمہاری روشنی سب کے سامنے روشن ہو ، تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمانوں پر ہے تمجید کریں ۔ ‘‘
یہی وہ عہد نامہ تھا ، جس پراس نے ملازمت کے پہلے ہی دن سے عمل کرنا شروع کردیا تھا ۔ ساری زندگی اسے ہی حکم کی طرح بجا لایا ۔ نہ کبھی اپنے قلم سے کسی کو نقصان پہنچایا ، نہ کبھی رشوت لی ، نہ زبان سے کبھی کوئی ایسا لفظ نکالا جس سے کسی کی دل آزاری ہو ، لیکن ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ایک ہی مہینے کے اندر ۔۔۔
طنزیہ ہنسی اس کے چہرے پر پھیل گئی ،اس کا بیٹااسے مشورہ دے رہا تھا ، ’’ ڈیڈ اب آپ کو بھی مارننگ واک کرنا مانگتا ! ‘‘
اس نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا ، تو کیا ہم ریٹائرڈ ہوتے ہی بوڑھا ہوگیا؟ لیکن آوازاس کے حلق سے نکلی ہی نہیں ۔
’’ آپ واکننگ کرے گا تو آپ کا ہیلتھ بھی اچھا رہے گا ۔ ‘‘
’’ ہوں ! ‘‘اس نے ہنکاری بھری اور بیٹے کی طرف دیکھا ، جو اپنی ٹائی کی ناٹ کو درست کر رہا تھا ۔ وہ سوچنے لگا کہ ریٹائرڈ ہوتے ہی ہمارا ہیلتھ بھی ڈاؤن ہوگیا؟
’’ ڈیوڈ ۔۔ ! ‘‘اس نے بیٹے کو آواز دی ۔ جو بیگاٹھا کر اپنے آفیس کے لیے نکل رہا تھا ۔
’’ ڈیڈ۔۔۔ شام کو بات کرے گا ۔ یو نو ۔۔ ابھی ہم کتنا لیٹ ہوگیا ہے ۔ ‘‘ اور پھر وہ تیزی سے باہر نکل گیا ۔ وہ بھی اپنی جگہ سےاٹھا اور دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا ۔ ڈیوڈ نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھاس کی جانب دیکھا ، ہاتھ ہلایا اور پھر زن سےاس کی کار گیٹ سے باہر نکل گئی ۔
اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔مارننگ واک کرنے والوں کا ایک ریلا تیزی سے چلتا ہوااس سے آگے نکل گیا ۔
’’ ہیلو مسٹر جان ۔ ! ‘‘
اس نے پلٹ کر دیکھا ، ’’ ہیلو مسٹر پرشوتم ! ہاؤ ڈو یو ڈو ؟ ‘‘
’’ فائن سر ! ‘‘ پرشوتم کے چہرے پر بڑی تازگی تھی ۔
’’ مسٹرپرشوتم ۔۔۔ ! ‘‘اس نےاسے نیچے سے اوپر تک دیکھا ، ’’ تم بھی مارننگ واک کے لیے نکلا ہے ؟ ‘‘
’’ نو سر ! ‘‘اس کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ تھی ، ’’ مجھے کیا ضرورت ؟ نو بی پی ، نو شوگر ۔۔ أئی یم کوئیٹ ویل سر ۔ !‘‘
جان کا سر جھک گیا ۔ بی پی تو ہم کو بھی نہیں ہوا ، شوگر بھی نہیں ، پھر ڈیوڈ ہم کو مارننگ واک کا کیوں بولا ؟ وہ سوچنے لگا ۔
’’ کیا سوچ رہے ہو سر ؟ ‘‘
’’ اوہ ۔۔ نو ۔۔ کچھ بھی نہیں ۔ ‘‘
جان نے قدم آگے بڑھایا ، لیکن اس کا دماغ ابھی تکاسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ پرشوتم کا عمر ہم سے صرف چھ مہینے ہی کم ہے ۔ چھ مہینے بعد یہ بھی ریٹائرڈ ہوجائے گا ۔ پوز کرتا ہے سالا ، جیسے چھ برس چھوٹا ہے ۔
’’ سر برا نہیں ماننا ، مگر آپ کے بھلے کے لیے کہتا ہوں ۔ ‘‘
جان نےاس کی طرف دیکھا ۔
’’ آپ کو غصہ بہت جلد آتا ہے ، مگر اب کنٹرول کرنا چاہیے ورنہ نقصان آپ ہیاٹھائیں گے ۔ ‘‘
’’ اوکے ۔۔ اوکے ۔۔۔ ! ‘‘اس نے لاپرواہی سے جواب دیا اور تیزی سے آگے نکل گیا ۔اس کے دماغ میں اب بھی وہی جملے گونج رہے تھے ۔ وہ پھر سوچنے لگا ، یہ لوگ ایسا کیوں سوچتا ہے کہ آدمی ریٹائرڈ ہوتے ہی بیمار ہوجاتا ہے ۔؟ کمزور ہوجاتا ہے ؟اس کو مارننگ واک کرنا چاہیے ؟ ہم تو ابھی پوری طرح فٹ ہے ۔ سب کے برابر شام کو دو پیگ شراب بھی پیتا ہے ۔اس کی نظریں سڑک پر پھینکے ہوئے کوک کے خالی ٹین پر پڑی اوراس نے حقارت سے پوری قوت کے ساتھاسے لات ماری ، لیکن عجلت میں پیر لچک گیا اور پیر کیانگلیاں جھنجھنااٹھیں ۔ وہ سڑک کے کنارے لگے میل اسٹون پر بیٹھ گیا اور تکلیف سے کراہنے لگا ۔ سورج نکل چکا تھا ۔ روپہری سنہری کرنیں زمین پر پھیل رہی تھیں ۔ جب ذرا تکلیف کم ہوئی تواس نے جھک کر دیکھا ، اسٹون پر لکھا تھا ، حیات پور ساٹھ میل ۔ ۔۔اسے ہنسی آگئی ، وہ بیٹھا بھی تواس اسٹون پر جو حیات کے ساٹھ برسوں ہی کا حوالہ دے رہا تھا۔اس نے پھر ایک بار نظریں سامنے کیں ، مارننگ واک کے متوالے خوف کی چادر اوڑھے آگے پیچھے قدماٹھا رہے تھے ۔اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور انجیلِ مقدس کے صفحات کھل گئے ۔
’’ اور یسوع مسیح کو پکڑھنے والےانھیں کائفا نامی کاہن سردار کے پاس لے گئے ۔ جہاں فقیہ اور بزرگ جمع تھے اور کاہن سرداراورصدر عدالت یسوع مسیح کوختم کرنے کے لیےان کے خلاف جھوٹی گواہیاں تراشرہے تھے ۔ ‘‘
وہ نڈھال قدموں سے گھر پہنچا ۔
اباس کا روز کا یہی معمول بن گیا تھا ۔ برسرِ روزگار احباب کے گھراس نے آنا جانا چھوڑ دیا تھا حالانکہ ان میں سے کئی ایک ایسے تھے جواس کی وجہ سے ابھی تک اسی شہر میں ٹکے ہوئے تھے ۔ کئی لوگوں کے نجی معاملاتاس نے ہی سلجھائے تھے ۔ روپیوں پیسوں سے کتنے ہی لوگوں کی مدد کی تھی ، اپنے سرکاری اثر و رسوخ کی وجہ سےاس نے ہمیشہ ہی دوسروں کی بھلائی کا کام کیا تھا ۔ لیکن اب وہ سب کے لیے غیر ضروری ہوگیا تھا ۔ وہ بھی گھر کے باہر نہیں نکلتا تھاکیونکہ اباس کا گرم جوشی سے استقبال کوئی بھی نہیں کرتا تھا ۔ جو بھی سامنے آتا ، دعا سلام کے بعد یہی ایک سوال کرتا ،طبیعت کیسی ہے ؟ حالانکہ ریٹائرڈمنٹ کے بعد شاید ہیاس نے بستر پکڑا ہو ، یا پھر بنا مانگے مشورے شروع ہوجاتے ، کھانے پینے کی ہدائتیں ، یوگا کی تلقین ، گھرہی میں آرام کرنے کی باتیں ، ٹریفک کی بد انتظامیوں کے گلے شکوے ، جبکہاسی سڑک پر یہ سب بھی تو چلتے پھرتے ہیں ۔ بیٹا کار کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا ، ڈرتا ہے کہ کہیں اس کاایکسیڈنٹ نہ ہوجائے ، جبکہ برسوں سے وہ خود ہی کار ڈرائیو کرتا آیا ہے ۔ ریٹائرڈمنٹ کے آخری دن بھی وہ اپنے آفیس سے گھر تک خود ہی کار ڈرائیو کرتا ہوا آیا تھا ۔ لیکن اس کے ریٹائر منٹ کے کچھ دنوں کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ اب وہ کار کو ہاتھ نہ لگائے کیونکہ اس عمر میں بریک اور ایکسیلٹر میں فرق محسوس نہیں ہوتا ۔
’’ ڈیڈ ۔۔ ہم کھانا لگا دیا ہے ۔ تم بھی ہمارے ساتھ ہی کھائے گا ؟ ‘‘
بہو کے سوال کا جواب دینے کے بجائےاس نے اخبار کو تپائی پر رکھا اوراٹھتا ہوا بولا ، ’’ اوہ ۔۔ یس ۔۔ چلو ، کیا بنایا ہے ؟ ‘‘
’’ بنایا تو بہت کچھ ہے ۔ بٹ ڈیڈ یو نو ، وہ ڈیوڈ بولا آپ کے کولسٹرال کو بڑھنا نہیں مانگتا ، اس لیے ہم آپ کے لیے ۔۔۔‘‘
’’ اوکے ۔ اوکے ۔۔ ! ‘‘اس نے جملہ پورا ہونے نہیں دیا ۔
’’ ڈیوڈ بولتا تھا ، کولسٹرال ہائی ہوجائے تو ہارٹ اٹیک آتا ہے ، اور ڈیڈ یو نو ۔۔ ادھر سے اسپتال بھی کتنی دور ہے ! ‘‘
’’ یو اینڈ یور ہسبنڈ آر جینیس ( You and your husband are genius ) ‘‘اس نے تعریفی طنزیہ انداز میں آنکھیں مٹکائیں، ’’ ہم کو اٹیک آیا تو ہم مر ہی تو جائے گا ؟ ‘‘ وہاس کے پیچھے پیچھے قدماٹھانے لگا ، ’’ اسی لیے تو روزی تمہارا ہسبنڈ اور ہمارا اکلوتا بیٹا ہمارے اکاؤنٹ سے سارا روپیہ نکال لیا ہے کہ بعد میں کون جھنجھٹ اٹھائے گا ؟ ‘‘
روزی کے چہرے پر کھسیانی ہنسی تھی لیکن اس کے گلے کا سونے کا لاکٹ اصلی چمک دکھا رہا تھا ۔
وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا اور بد مزہ کھانوں کے نوالے توڑنے لگا اوراس کے نتھنوں میں مرغن کھانوں کی سوندھی سوندھی خوشبو مہک رہی تھی۔اس نے نظریں اٹھائیں ، کھڑکی کے باہر دیکھا ، تیز دھوپ میں ہر چیز چمک رہی تھی ۔ اشوک کے اونچے اونچے درختوں اور چنبیلی کے منڈوے سے بلند ہوتے ہوئے آنکھوں کے دائرے وسیع ہوتے جارہے تھے ۔ یہاں تک کہ ناریل کے درختوں کے جھنڈ سے پرے فٹ بال گراؤنڈ آگیا ، اور گراؤنڈ کی دوسری جانب جھیل تھی ۔ جھیل میں لہریں اٹھ رہی تھیں ۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈبکیاں لگا رہے تھے ۔ آسمان میں پرندےاڑ رہے تھے ، اور گینداس کے پیروں میں ایسی تھی جیسے مقناطیس سے لوہا چپک جاتا ہے ۔ وہ بہت تیزی سے مخالف ٹیم کے گول پول کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ پہلے جوزف نےاس کے پیروں سے گیند لینا چاہا اور ڈاچ کھاکر پیچھے رہ گیا ۔ پھر وکرم پوری طاقت کے ساتھاس کے مقابل آیا لیکن گیند کواس کے پیروں سے جدا نہ کر سکا ، ایک جھکائی کے ساتھ ہی وہ چھوٹی ڈی میں داخل ہوگیا ۔اس کی آنکھوں کے سامنے گول کیپر مستعید تھا ۔ بس ایک کک ، اور ٹیم کی فتح تھی ، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کِک لگاتا اور گیند گول کیپر کو ڈاچ دیتے ہوئے گول پول میں داخل ہوتی ، ایک زنانی چیخابھری۔۔ شبیر۔۔۔۔!
اور پھر شبیر میریاٹھی ہوئی کِک کو نیچے آنے سے پہلے ہی گیند کو لےاڑا ، اور وہ پھر ایک بار سینٹر پر ٹپ کھاتے ہوئےاس کے گول پول کی طرف چلی جا رہی تھی ۔اس نے رک کر مخالف ٹیم کے گول پول کی طرف دیکھا ۔ بہت سارے لوگوں کے درمیان ایک لڑکی کھڑی تھی۔ سفید لباس میں وہ فرشتوں کی طرح نظر آرہی تھی ۔اس کے سنہرے بال ہوا میں اڑ رہے تھے ، اور وہ اب بھی شبیر کے لیے تالیاں بجارہی تھی ۔
اس کی ٹیم ہار گئی تھی ۔ شبیراس کا بھی دوست تھا ۔ بچپن کا دوست ۔ میچ کے بعد جباس نےاس لڑکی کی طرف اشارہ کیا تو شبیر نے زور سے قہقہہ لگاتے ہوئےاسے بتایا کہ وہ پچھلے دو برس سےاس کی پڑوسن ہے ۔ بہت اچھی لڑکی ہے ۔اس کی بے تکلف دوست ہے ۔ پھراس نے اچانک اس کی طرف غور سے دیکھا تھا ، ’’جان تو بھی تو کرسچین ہے ۔ چل میں تیرے کواس سے انٹرڈیوس کراتا ہوں ۔ پنکی لنڈا سے وہاس کی پہلی ملاقات تھی ۔ میچ ہار کر بھی اس نے زندگی کا سب سے بڑا انعام جیت لیا تھا ۔ زندگی کے چالیس برس دونوں نے میاں بیوی بن کر گزارے ۔اس نے زندگی میں اس کے ہاتھوں کبھی بد مزہ کھانا نہیں کھایا تھا۔بات بات پر ہنسنے مسکرانے والی پنکی لنڈا،ہر مشکل گھڑی میں ڈھال بن کر ڈٹ جانے والی پنکی لنڈا،اپنے سکھ تیاگ کر اس کے دکھ درد بانٹنے والی پنکی لنڈا ہنستے ہنستے ہی اس کی زندگی سے اچانک چلی گئی۔تابوت میں لٹاتے ہوئے بھی اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ سچ مچ ہمیشہ کے لئے چلی گئی۔ اس کے بعد اس نے کسی دوسری عورت کا چہرہ نہیں دیکھا۔ اپنی ساری زندگی اپنے دونوں بچوں کے لئے وقف کردی۔ پہلے روزی کی شادی کی اور بعد میں بیٹے کی بھی شادی کردی۔
’’ڈیڈ آپ کیا سوچتا ہے؟ پلیز کھانا ٹھنڈا ہوتا ہے!‘‘
’’اوہ سوری! ‘‘اور وہ پھر چکھتے مکھتے نوالے حلق سے نیچے اتارنے لگا۔
روز و شب اسی طرح گزر رہے تھے۔بیماریوں کی صفائی دیتے دیتے اب اسے بھی احساس ہونے لگا تھا کہ واقعی وہ کمزور ہو گیا ہے۔مشوروں نے اسے بہت حد تک اپنا اسیر بنالیا تھا۔ اس میں تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی تھی۔ اب جب بھی وہ مارننگ واک کے لیے نکلتا۔ اس کے جسم پر اوورکوٹ، سر پر ہیٹ اور گلے میں مفلر پھنسا ہوا ہوتا، اس کے مزاج میں عجیب سی سنجیدگی آگئی تھی۔ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا تو ترک کر ہی دیا تھااب گھر کے لوگوں سے بھی بات چیت بہت کم کرتا تھا۔ مارننگ واک کے بعد یا تو وہ گھرمین اخبار پڑھتا رہتا ،یا پھر بستر پر لیٹا رہتا اور اپنی ہی سوچوں میں گم رہتا۔عجیب عجیب بیماریوں کی علامتیںاسے اپنے اندر بھی دکھائی دینے لگی تھیں اور اکثر گھبراہٹ کے مارے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں ۔
’’ڈیڈ۔۔۔ تم کو اب پابندی سے چرچ بھی جانا منگتا!‘‘ اس کا بیٹا پھر ایک بار اس کے مقابل بیٹھا تھا۔
’’چرچ۔۔۔وہ تو ہم پہلے روز جاتا تھا۔‘‘
’’ڈیڈاب آپ کو روزجانا منگتا۔‘‘
’’او کے کل سے ضرور جائے گا۔‘‘اس کی آواز بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’گڈ ڈیڈ۔۔۔! موت تو سب کو آئیگا بٹ جب آپ یسوع مسیح سے ملے گا تو وہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔‘‘
اسے اچانک محسوس ہوا جیسے موت کا فرشتہ دروازے پر کھڑا ہے ۔اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
’’ اور جب یہ فانی جسم بقاء کا جامہ پہن چکے گا ، تو وہ قول پورا ہو جائے گا ، جو لکھا ہے کہ موت فتح کا نغمہ ہوگی ، مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے یسوع مسیح کے وسیلے سے ہم کو فتح بخشتا ہے ۔ بس ائے میرے عزیز بھائیوں ثابت قدم رہو ، اور خدا وند کے احکام بجا لاؤ ، یقین جانو تمہاری محنت خداوند کے حضور بے اجر نہیں ہے۔ ‘‘
دوسرے ہی دن وہ چرچ کی طرف جا رہا تھا ۔ چرچ تک پہنچنے کے لیےاسے مین سڑک کو چھوڑ کراس پگڈنڈی پر بھی چلنا تھا جو چھوٹی سی پہاڑی پر واقع چرچ تک پہنچاتی تھی ۔ وہ آہستہ آہستہ قدماٹھا رہا تھا ۔ پہاڑی پر چرچ کی عظیم الشان عمارت کھڑی تھی ۔ چاروں کونوں پر بڑے بڑے بُرج بنے ہوئے تھے ۔ان پر مثلث نما گنبد تھے ۔ اور گنبدوں کے اوپر صلیبیں استادہ تھیں ۔ چرچ کا عالی شان بلند دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ لوگ عقیدتوں میں ڈوبے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ۔
آج کچھ بھیڑ زیادہ ہی تھی ۔اس نے دل میں سوچا اور جلدی جلدی قدماٹھانے لگا ۔ پہاڑی کی بلندی پر پہنچ کراس نے نیچے کی طرف دیکھا ، ڈھلان پر غریبوں کی بے شمار جھونپڑیاں تھیں اوران کے ننگ دھڑنگ بچے ادھرادھر گھوم رہے تھے ۔اس نے جھونپڑیوں سے نظریںاٹھاکر چرچ کی عالیشان عمارت کی طرف دیکھا ۔ چرچ کے بلند دروازے پر ایک خوبصورت حلقہ بنا ہوا تھا ۔ اوراس میں ماں مریم کی نہایت خوبصورت سنگ مرمر کی مورتی تھی ۔ بے اختیار وہ دل ہی دل میں بدبدایا ، مدر یہ غریب لوگ ہی اب تک تیرے سے جڑا ہوا ہے ۔ جیسے مسیح کے ٹائم پر بھی وہ مسیح کے ساتھ تھا۔ تمان کے واسطے کچھ کیوں نہیں کرتا ؟۔۔۔ وہ بلندی سے غربت کا نظارہ کرنے لگا ۔۔۔اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔۔۔ ہم سمجھ گیا مدر، کیونکہ اگر یہ خوش حال ہوگیا تو یہ جگہ چھوڑ دے گا اور بلڈنگوں میں آباد ہوجائے گا ۔ تم اکیلا رہ جائے گا ۔ بٹ مدر ہم تم کو یقین دلاتا ہے ، یہ انڈیا ہے ۔ یہ جب تک دُنیا کے میپ (Map) پر رہے گا ادھر سے غریبی نہیں جائے گا ۔ تمہارا پڑوسی ہمیشہ باقی رہے گا ۔
وہ چرچ میں داخل ہوا ۔ اندر کی جگمگاہٹ دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ چھت پر لٹکے ہوئے بڑے بڑے فانوس روشن تھے ۔روشنی سے ہر چیز جگمگا رہی تھی۔ عالیشان فرنیچر تھا ۔ معبد مقدس کے چبوترے پر بے شمار موم بتیاں روشن تھیں ۔اس پر ایک چھوٹی سی سنگی تپائی تھی ، اوراس پر انجیلِ مقدس رکھی ہوئی تھی ۔لوگ دو رویہ بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے ، اور رئیس شہر کا انتظار کر رہے تھے ۔ جو حال ہی میں منتخب ہوا تھا ۔ وہ بھی ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔سامنے کی دیوار پر یسوع مسیح کا نہایت خوبصورت پورٹریٹ بنا ہوا تھا ۔ وہ اب بھی صلیب پر موجود تھے ۔ چرچ میں کا رندے،نن اورپادریوں کا نصاب مکمل کرنے والے طلباء حمد و ثنامیں مشغول تھے اور گھنٹیوں کی آوازوں سے ساری فضا گونج رہی تھی ۔ پورے ماحول پر تقدس کی فضا چھائی ہوئی تھی ۔ اچانک پچھلے راستے سے رئیس شہر ،پادریوں کے جھرمٹ میں چرچ میں داخل ہوا ۔ سب لوگاس کے استقبال کے لیےاٹھ کھڑے ہوگئے۔ حمد کی لئے تیز ہوگئی ۔ گھنٹیوں کے بجنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا ۔
بڑے پادری نےاسے معبدِ مقدس کے چبوترے کے قریب لے کر گیا ۔ چرچ کےاصولوں کے مطابقاسے لباسِ فاخرہ عطا کیا گیا ۔ روشنی پوری شدت کے ساتھ رئیس شہرکے چہرے پر پڑرہی تھی، اور جان حیران نظروں سےاسے دیکھ رہا تھا ۔ پادری نےاس کے ہاتھوں میں عصائے کلیسا تھما دیا تھا ۔ وہ سب معبد مقدس کے چبوترے کے اطراف چکر لگانے لگے ۔ان کے پیچھے پیچھے بہت سارے پادری تھے ۔ جن کے ہاتھوں میں شمع دان تھے۔ان میں سے بعض نے جلتے ہوئے لوبان کے تھال بھیاٹھا رکھے تھے ۔
جان پھٹی پھٹی آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا ۔ یہ پیٹر بلیک مارکیٹر رئیسِ شہر کیسے بن گیا ؟ مدر مریم تم دیکھ رہا ہے ۔ پادری معبد خاص کے چبوترے سے لگ کر حمد و ثنا میں مصروف تھا ، اور جان کے دل و دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے ۔ اے مقدس مسیح تم ادھر فانوسوں کی جھوٹی روشنیوں میں جگمگاتا ہے ۔ چوتھے آسمان سے زمین کو نہیں دیکھتا ، دیکھ تیرے چاہنے والے آج بھی جھونپڑیوں ہی میں بستا ہے ۔ ائے عظیم الشان چرواہے تیریاس بھیڑ کو ان بلیک مارکٹیوں نے پھاڑ ڈالا ہے ۔ تم ابھی آنے میں اور کتنا ٹائم لے گا ۔۔۔ ائے ہمیشہ زندہ رہنے والے مقدس باپ کے مقدس بیٹے تم کو جلدی ایک بار پھر زمین پر آنا مانگتا ۔ ۔۔
دکھ اور غصے سےاس کا سر پھٹا جا رہا تھا ۔ وہ خاموشی سے چرچ سے باہر نکل گیا اور بنا سوچے سمجھےاس کے قدماٹھ رہے تھے ۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ غصے کے باعثاس کی دھڑکن تیز ہوگئی ہے ۔اس کے پیر کپکپانے لگے ہیں ، ’’ مسیح ہم ساری زندگی تیرے عہد نامہ سے بندھا رہا ، تیرے بتائے ہوئے راستوں پر چلتا رہا ، تم ہم کو کیا دیا ؟ ایک کمزور بدن ، اور جیتے جی وہ غذا جس میں کوئی لذت نہیں ؟ تمان کو وہ سب کچھ دیا جو تمہارے راستے پر کبھی چلا ہی نہیں ، رشوت خور ، بلیک مارکیٹر ، کالا روپیہ جمع کرنے والا معبدِ خاص تک پہنچ گیا اور ہم ۔۔۔۔ ہم چرچ سے باہر ۔۔۔ ؟
وہ آہستہ آہستہ قدماٹھا رہا تھا ۔ دھوپ میں تیزی آنا شروع ہو گئی تھی ۔ سڑکوں پر ٹریفک بڑھ گئی تھی ۔ چاروں طرف ایک شور تھا ۔اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب جھیل کے قریب پہنچ گیا ۔اس کی آنکھوں کے سامنے تاافق جھیل کا پانی پھیلا ہوا تھا ۔ آسمان میں پرندےاڑ رہے تھے۔ وہ جھیل کے کنارے بنی ہوئی سنگی بینچوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا ، اور جھیل کےاس حصّے کی طرف دیکھنے لگا جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تیر رہے تھے۔ ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے۔ ایک دوسرے پر پانیاچھال رہے تھے۔ادھرادھر اور بھی لوگ تھے جو سنگی بینچوں پر بیٹھے جھیل کا نظارہ کر رہے تھے۔ناریل کے درختوں کے جھنڈ سے پرے وہی فٹبال کا میدان تھا اور غالباً اب بھی وہاں کوئی میچ کھیلا جا رہا تھا۔ وقفے وقفے سے سیٹیاں گونج رہی تھیں۔ اس نے دور سے ایک طائرانہ نظر گراونڈ پر ڈالی اور پھر سوچوں میں گم ہو گیا۔اس کا دل اب بھی عجیب عجیب وسوسوں سے گھِرا ہواتھا۔پتہ نہیں وہ کب تلک سوچتا رہا۔اس نے اپنی آنکھیں بھی موندلیں تھیں۔شاید وہ اپنی ہی سوچوں سے نبرد آزما تھا کہ ٹھیک اسی وقت کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا،اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور پلٹ کر دیکھا۔نیلی جینس پینٹ اور پیلی جرسی میں ملبوس کوئی جانی پہچانی صورت دکھائی دے رہی تھی۔
’’جان ۔۔۔ مجھے نہیں پہچانا۔۔۔؟یار۔۔۔ میں شبیر ہوں۔تمہارے بچپن کا دوست!‘‘
’’شبیر۔۔۔‘‘ وہاچھل کر کھڑا ہو گیا اور اس کے گلے لگ گیا،’’کدھر تھا تم مین اتنے دنوں سے؟‘‘
’’گوا میں۔۔۔وہاں میرا فشیری(Fishery)کا بزنس ہے۔‘‘وہ اسے لے کر دوبارہ بینچ پر بیٹھتا ہوا بولا’’اور تم۔۔۔یہ کیا سونگاٹھایا ہے بوڑھے کی مانند،یہ اوور کوٹ،گلے میں بیماروں کی طرح مفلر،آنکھوں میں اس قدراداسیاں......میرے یار کیا ہو گیا ہے تم کو۔۔۔؟‘‘
’’کچھ نہیں یار۔۔۔ابھی ہم ادھر اپنی ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہو گیا ہے۔‘‘جان کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔
اس نےاس کی مایوسیوں کو پڑھ لیا تھا ۔اسے جان پر ترس آنے لگا ، ’’جان۔۔۔! تم صرف ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہوئے ہو ،زندگی سے نہیں۔‘‘اس نے اپنی چھاتی کو پھلایا،’’مجھے دیکھ عمر تو میری بھی بڑھی ہے۔لیکن میں بوڑھا نہیں ہوا۔ وہ۔۔۔وہادھر اپنا فٹبال کا گراؤنڈ تھانا۔۔۔ارے اب بھی ہے،میں وہیں پر تھا۔لڑکے میچ کھیل رہے تھے اور میرا دل بارباراچھل رہاتھا کہ میں بھی کھیل میں شامل ہو جاؤں ۔۔۔‘‘ وہ اپنی جگہ سےاٹھا اور جان کے مقابل کھڑا ہوتے ہوئے گویا ہوا،’’تم کو یاد ہے نا۔ہم دونوں اسی گراؤنڈ پر تو کھیلا کرتے تھے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ جان کے لبوں سے آہستہ سے نکلا۔
’’اور جان! کھیل کے بعد یہی جھیل تھی جس میں ہم دونوں گھنٹوں تیرا کرتے تھے؟یادکرو۔‘‘
جان کی آنکھوں میں لمحہ بھر کے لئے چمک پیدا ہوئی۔’’شبیر تم سالا بالکل بوڑھا نہیں ہوا۔‘‘
’’ہوتا بھی کیسے۔۔۔؟‘‘ شبیر نے قہقہہ لگایا،’’میں تمہاری طرح گورنمنٹ جاب میں تھوڑا ہی تھا جو ریٹائرڈ ہو کر بوڑھا ہوجاتا؟ دیکھ۔۔۔اب بھی فٹ ہوں!‘‘اس نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنائیں اور ہاتھوں کو ہوا میں لہرایا،’’مگر تم گورنمنٹ کے غلام ریٹائرڈ ہوتے ہی اپنے آپ کو خود ہی بوڑھا بنالیتے ہو، یار جیو جی بھر کر جیو! زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔۔۔‘‘وہ پھر بینچ پر بیٹھ گیا،’’چل جان میرے کو بتا تیرے کو بلڈ پریشر ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔!‘‘ جان نے فوراجواب دیا۔
’’میرے کو بھی نہیں ہے اور شوگر۔۔۔؟‘‘
’’وہ بھی نہیں ہوا ابھی تک!‘‘
’’گڈ۔۔۔! لیکن تم پھربھی احتیاط کا کھانا کھاتے ہونگے۔لوگوں کے ڈراؤنے مشوروں کو سچ سمجھتے ہوں گے۔۔۔جان! اس بکواس سے باہر نکلو،یہ کیا بیماروں کی طرح بیٹھے ہو، چلو آج ہم دونوں پھر ایک بار اس جھیل میں نہاتے ہیں، اور دیکھتے ہیںاس ٹارگیٹ تک پہلے کون پہنچتا ہے ؟ ‘ ‘
جان نے حیرت سے کبھی شبیر کی طرف اور کبھی جھیل کی طرف دیکھا۔ پھراس کے چہرے پر مسکراہٹ کھل اٹھی۔اس نے گلے سے مفلر کو نکال پھینکا اور اوورکوٹ کو اتارتے ہوئے شبیر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا،’’ ہوجائے۔۔۔ابھی دیکھیں گا، کس میں ہے کتنا دم!‘‘
شبیر کا قہقہہ جھیل کی لہروں پراچھلتا ہو افٹ بال کے گراؤنڈ سے ہوتا ہوا آسمانوں میں گونجنے لگا۔