پیپل کی چھئیاں
شاستری واڑے کے صحن کی سب سے اونچی دیوار کے بیچوں بیچ پھر ایک بار پیپل کا پودا نکل آیا تھا اور بارہ برس کا وجئے شاستری ایک بڑی سی سیڑھی لگائےاسےاکھاڑنے کی کوشش میں لگا ہواتھا۔ سیڑھی کے پاس کھڑااس کا پانچ برس کاچھوٹا بھائی اجئے شاستری موتی چور کا لڈّو کھانے میں مست تھاکہ ماں کی دور ہی سے آوازابھری، ’’ وجو۔۔۔تو پھر پیپل کے پودے کو توڑنے میں لگا ہے ۔ ‘‘
وہ تیزی سے سیڑھی سے نیچےاتر ا، اور ماں کے سامنے کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔
’’ کتنی بار تجھے سمجھایاکہ پیپل کے پودے کو نہیں توڑتے۔‘‘ ماں نےاس کا کا ن زور سے کھینچا ، ’’ مورکھاس میں بھگوان وشنو بستے ہیں ۔ تیرے پتاجی نے دیکھ لیا تو ۔۔۔ پیپل سے چھمامانگ ۔ ‘‘
’’بہت اچھا، ابھی مانگ لیتا ہوں ۔ ‘‘ وہ پھر سے سیڑھی چڑھنے لگا، اور ماں رسوئی گھر کی جانب چلی گئی ۔
لیکن وجئےاس پیپل کے پودے کواکھاڑ کر ہی نیچے آیا ۔
اجئے لڈّو کھانے میں مگن تھا ۔اس نےاسے گھور کر دیکھا اور پوچھا، ’’ اجو تیرے کو پتہ ہے پیپل کا یہ پودا پہلی بار اس دیوار میں کب آیا تھا ؟ ‘‘
اجئے نے انکار میں گردن ہلائی، اور پھر حسب معمول موتی چور کا لڈو کھانے میں مصروف ہوگیا ۔
’’ تو تو کچھ جاننا چاہتا ہی نہیں ، بس لڈّو کھاتا رہتا ہے ۔ ‘‘ وجئےاسے بتانے لگا، ’’ ماں کہتی ہے جس دن میں پیدا ہوا تھا ،اسی دن اس دیوار سے اس پیپل کے پودا نے بھی اپنا سر باہر نکالا تھا ۔ ‘‘
وجئے نے اپنے بڑے بھائی کی طرف دیکھا اور پھر پیپل کےاس پودے کی طرفانگلیاٹھاتے ہوئے سوال کیا، ’’ بھیا یہ دیوار میں کیوں آتا ہے ؟ ‘‘
’’ اسی لیے تو ۔۔۔ جب بھی یہ دیوار سے باہر آتا ہے میں اسےاکھاڑ دیتا ہوں ۔ ‘‘ٰ
’’وہ کیوں ؟ ‘‘ اجئے نے لڈّو کھاتے ہوئے بھائی کی طرف دیکھا۔
’’ وہ اس لیے کہ اگر اسے نہیںاکھاڑا گیا تو یہ دیوار کو کمزور کردے گا ، لیکن پتاجی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ ‘‘ وجئے نے اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اوردیوارکی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا، ’’ کتنی بار اسےاکھاڑ چکا ہوں ، مگر اجو یہ بھی اپنے پتاجی کی طرح ہٹّی ہے ۔‘‘
اجئے نے کوئی تاثر نہیں دیا اور لڈّو کھانے میںاسی طرح مصروف رہا اور وجئے سوچنے لگا، میں صبح دیر تک سونا چاہتا ہوں لیکن پتاجی صبح چاربجے ہی جگا دیتے ہیں ، اور پھران کی اچھا کے انوسار، آنکھیں کھولتے ہی سنسار کے رچئیا کو سو سو نمن کرو ، پھر دھرتی کو نمن کرو کہ دن بھر تجھ پر چلوں گا ، پھر سوریہ نمن، کہ تیری روشنی میں دن بتاؤں گا ، پھر ٹھنڈے پانی سے اشنان ، اور گائتری منتر کا جاپ ، بھوک نہ بھی ہو توان کے ساتھ جل پان کرو، اور پھر گھنٹہ بھران کا پرو وچن سنو ، وہ بھی پورے دھیان سے ۔ایک دن بھی وہ آرام سے سونے نہیں دیتے ۔
ٹھیک اسی وقت پنڈت روی شاستری کی آواز سنائی دی، وجئے نے بڑے دروازے کی طرف دیکھا ، پنڈت جی رگھوناتھ سے باتیں کرتے ہوئے باڑے میں داخل ہوئے ، ’’ رگھوبا اس بات کا سمرن رہے شاستری واڑے کا دوار کسی ادھرمی کے لیے نہیں کھل سکتا ۔وہ میری دھرم پتنی کا بھائی ہوا تو کیا ہوا ؟ وہ ماس مچھلی کھاتا ہے ۔‘‘
’’ مہاراج وہ بس ایک نظر اپنی بہن اور بھانجوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ‘‘
’’ان سے کہدو یہاں سب کشل منگل ہیں ۔‘‘ پنڈت جی کا لہجہ نہایت سخت تھا ، رگھوناتھ ابھی کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ وہ تیز تیز قدموں سے مکان کے اندر داخل ہو گئے اور رگھوناتھانھیں دیکھتے ہی رہ گئے ۔
وجئے نے رگھوناتھ کی طرف دیکھا،ان کا چہرہ شام کے ملگجی اندھیرے کی طرحاداس ہو گیا تھا ۔ وہ اب بھیاسی طرف دیکھ رہے تھے ۔ جیسےانھیںآشا تھی کہ پتاجی باہر آئیں گے اوران کی بات مان لیں گے ۔
صحن میں پیپل کے پتے ادھرادھر پڑے ہوئے تھے ۔ وجئے رگھوناتھ کے سامنے سے ہٹ گیا اور بڑے دروازے سے باہر جھانکنے لگا،اسے لگا دور کہیں ماما کھڑے ہیں کسی نےان کا سینہ چیر دیا ہے اوران کا دل پیپل کے پتوں کی مانند باڑے میں ادھرادھر پھڑ پھڑا رہا ہے ۔ جب جب بھی وہ پیپل کے پودے کواکھاڑتا تھا،اس کے پتوں کو جمع کرتا تھا لیکن اس باراس نےانھیں سمیٹا نہیں بلکہ اپنی ماں کے پاس پہنچا اور پوچھا ، ’’ ماں جی سچ سچ بتانا، کیا آپ کا دل ماما سے ملنے کو نہیں مچلتا ؟ ‘‘
ماںاسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگی، کیونکہ آج تکاس نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی تھی ۔اس نے پھر ایک بار اپنا وہی سوال دوہرایااور ماں کی گردن جھک گئی، ’’ دل تو چاہتا ہے کنتوانھوں نے دھرم کے نیم توڑے ہیں ۔ ‘‘
’’ اس کا دنڈانھیں بھگوان دے گا ۔ ‘‘اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ’’ کنتو۔۔۔ آپ اور پتاجی بھگوان بننے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں ؟ ‘‘
ماں نےاسے لپٹالیا، ’’ پتر۔۔۔ میں تو کیول ایک پتنی کا دھرم نبھا رہی ہوں ۔جو بات میرے سوامی کو پسند نہ ہو میں اسے کیسے پسند کرتی ؟ ‘‘
’’ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے ؟ ‘‘اس نے تڑپ کر کہا ۔
’’ ہاں۔۔۔ یہ بات ابھی تیری سمجھ میں آئے گی بھی نہیں ۔ ‘‘ ماں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، ’’ جب تیرا بیاہ ہوگا تو بھگوان جانے تو بھی کن کن باتوں سے اپنی پتنی کو روکے گا ۔ ‘‘
’’ میں ایسا کچھ نہیں کروں گا ۔ ‘‘ وہ ابھی کچھ کہنا ہی چاہتاتھا کہاس کے کانوں میں پنڈت جی کی آواز پہنچی اور وہ بیٹھک کی جانب بڑ بڑاتا ہواچل پڑا،
’’ پتہ نہیں اب وہ کونسا پاٹھ پڑھائیں گے ۔ ‘‘
پنڈت روی شاستری کو اپنے خاندان پر بڑا فخر تھا ۔ان کے پُرکھے پیشواؤں کے راج مہنت تھے ۔ وہ نہایت کٹّر قسم کے برہمن تھے ۔ کسی زمانے میں ان کی بڑی جاگیر تھی اور اب بھی وہ بہت بڑے زمیندار تھے ۔انھیں آج بھی کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ان کا باڑا بستی کا سب سے عالیشان باڑا تھا۔ وہ کنجوس بھی نہیں تھے ۔کتنے ہی غریب برہمن خاندانان کی سرپرستی میں پل رہے تھے ۔ وہ کتنی ہی مذہبی تنظیموں کے سربراہ تھے، دان دھرم میں وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے ، لیکن مذہبی معاملات میں وہ کسی سمجھوتے کے قائل نہیں تھے ۔ گھر، بازار اور مندر میں کہاگیاان کا ایک ایک لفظ پتھر کی لکیر تھا ۔ کسی میں اتنی مجال نہیں تھی کہان کے کہے ہوئے لفظ کو کاٹ سکے ۔ مندر میں جب بھی وہ ہری اوم کہتے ہوئے داخل ہو تے تو معلوم ہوتا مندر کی ساری گھنٹیاں ایک ساتھ بج رہی ہوں ۔ دودھ کی طرح گوری رنگت ، سب سے نکلتا ہوا قد، چوڑا چکلا سینہ ، چندیا کے پیچھے چانکیہ کی طرح جھولتے ہوئے لمبے لمبے بال ، ماتھے پر چندن سے کھینچی ہوئیں چار لکیریں ، کان کے اوپر سے بغل کے نیچے تک آتا ہوا جینوکا ڈورا، سفید پھول دھوتی اور کاندھے پراس کا پلو،انھیں دیکھتے ہی احساس ہوتا تھا کہ یہ ضرور کسی رجواڑے کے مہا مہنت ہیں ۔ جب جب بھی وہ پرو وچن کے استھان پر ہوتے،ان کے سامنے ہزاروں کا مجمع ہوتا ، اوران کا کہا ہوا ایک ایک لفظ عقیدت مند پھولوں کی طرح اپنے دل و دماغ میں بسا لیتے ۔ان کی بڑی خواہش تھی کہان کا بڑا بیٹا بھیان ہی کے نقشِ قدم پر چلے ۔ اسی لیےاس کی تربیت کی خاطر وہاسے اپنے ساتھ بھی لے جانے لگے تھے ۔ وجئے کوان کی بہت ساری باتوں سے اختلاف تھا لیکن اوروں کی طرح باپ کے سامنے زبان کھولنے کیاس میں بھی ہمت نہیں تھی حالانکہ اب وہ کالج جانے لگا تھا ۔
ایسے ہی اپنے ایک پرو وچن میں وہ دھرم کی بابت سمجھا رہے تھے کہ دھرم کا ارتھ کیول پوجا پاٹ اور بھگوان کی مورتی کے سامنے متھا
ٹیکنا نہیں ہے ۔ پندرہ برس کا وجئے شاستری بھیان کا بیان سن رہا تھا ، وہ کہے رہے تھے ، ’’ سمرن رہے ، سب سے بڑا دھرم دوسروں کی بھلائی کرنا ہے اور سب سے بڑا پاپ یا ادھرم ، دوسروں کو دُکھ دینا ہے ۔ اس سرشٹی کے رچئیا کے لیے سبھی مانو ایک سمان ہیں ۔ شری کرشن بھگوان نے کہا تھا جو دھنوان کسی نردھن کا اپمان کرتا ہے تو لجیت وہ نردھن نہیں ، میں ہوتا ہوں ۔ ۔۔ وہ دھرم کا بکھان کیے جارہے تھے اور وہاں پر بیٹھا ہوا وجئے سوچ رہا تھا ، پھر میرے کالج کے متر، جوزف، روزی، احمد، عائشہ، بھیم ، سکینہ، سریکھا وغیرہ کے لیے میرے باڑے کے دروازے کیوں بند ہیں ؟ ماما اگر ماس مچھلی کھاتے ہیں تو کیا ہوا ، پتاجیانھیں ماں سے کیوں نہیں ملنے دیتے ؟ان کا اپمان کیوں کرتے ہیں ؟ کیا اس وجہ سےان کو دکھ نہیں ہوتا ہو گا ؟ وہ وہاں سے خاموشی سےاٹھا اور مندر سے باہر جانے لگا ۔ پنڈت جی نےاسے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا لیکن انھوں نےاسے روکا نہیں ، البتہان کی پیشانی شکن آلود ضرور ہو گئی تھی اوران کی آواز گونج رہی تھی، منو سمرتی میں مہا رشی منو نے دھرم کے کچھاصول بتائے ہیں ۔جیسے کشما ، یعنی معافی ، دم یعنی من پر وش پانا ، دِھی یعنی بدھی سے کام لینا ، لیکن کیا ہم اناصولوں پر عمل کرتے ہیں ؟ جب نہیں کرتے تو موکش کیسے ملے گا ؟
اسی رات وجئے شاستری ایک نئی روشنی سے متعارف ہوا ،اسی راتاس نے ’’ انسانیت اور مذہب کے عنوان ایک چھوٹا سا مضمون لکھا ، صبح چاربجے وہ باپ کی آواز پر بیدار تو ہوا لیکن ان کے پیچھے بیٹھنے کے بجائے وہ کالج سے جانے والی پک نک کی تیاریوں میں لگ گیا ۔
بس شہر پونا سے بیس کلو میٹر دور واقع قلعہ تورنا کی پہاڑی کے مشکل سفر پر دوڑ رہی تھی۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گاتے بجاتے ، ہنسی مذاق کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے ، ا س خوش گوار ماحول میں اچانک وجئے شاستری اپنی سیٹ سےاٹھا، ’’ دوستو میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں ، آخر ایشور نے انسان کو کیوں پیدا کیا ؟ ‘‘
بس میں سناٹا چھا گیا اور سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔
’’ یہ پک نک کو بھی کلاس روم بنانا چاہتا ہے ۔ ‘‘ جوزف کی زبان سے نکلا ۔
اور جواب میں ایک قہقہہ گونجا ۔
’’ پک نک کے لیے ۔ ‘‘ رتن کی شوخ آوازابھری اور سب ہنسنے لگے ۔
’’ میں نے ایک گمبھیر سوال کیا ہے ۔ ‘‘ وجئے پوری سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگا ، ’’ اسے مذاق میں نہ لو ۔ ‘‘
’’ یار ہم لوگ پک نک پر جا رہے ہیں، مذاق ہی کرنے دو ۔ ‘‘
اس نے سنسکرت کے پروفیسر مسٹر کے۔ و۔ سوامی کی طرف دیکھا، ’’ سر یہ سوال آپ سے بھی ہے ؟ ‘‘
پروفیسر نے تمام نوجوانوں کی طرف دیکھا اور پھر نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں کہنے لگا ، ’’ جیا رام کے سمسکارہ کے انوسار ایشور نے اس دھرتی پر انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ ایک سمپورن سنسکرتی کے ساتھ پریم اور مانوتا کا ماحول پیدا کرے ۔ ‘‘
’’ یہ واتاورن ہمیں ا پنے دیش میں کیوں نہیں نظر آتا ؟ ‘‘
’’ تمہارے کہنے کا ارتھ کیا ہے؟ ‘‘ پروفیسر نے استہفامیہ انداز میں وجئے شاستری کی طرف دیکھا ۔
’’ سر ۔۔۔ ‘‘ وجئے اپنی ہی بات کی تشریح کرنے لگا ، ’’ اس بس کو آپ ہندوستان کی تمثیل سمجھیے، اس میں وجئے شاستری بھی ہے ،محمد اور جوزف بھی ہیں ، بھیم ، عائشہ اور سریکھا بھی ہیں ۔ سب کے اپنے اپنے دھرم بھی ہیں ۔ سب اپنے اپنے حساب کا کھانا کھاتے ہیں ، اپنے اپنے کلچر کے مطابق لباس پہنتے ہیں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے، ہم سب ایک ہی آواز میں گانے گا رہے تھے ۔سکینہ میرے ساتھ بیٹھی ہے ۔ جوزف کے بازو سریکھا ہے ۔ بھیم سے سٹ کر روزی ، اور بھی سارے لڑکے او ر لڑکیاں ایک دوسرے سے گھل مل کر بیٹھے ہیں ۔ ہم سب ایک ہی بس میں سفر کر رہے ہیں ، لیکن بس سے باہر یہ منظر کیوں نہیں دکھائی دیتا ، ہم کیوں ایک دوسرے سے بھاشا، کھان پان ، لباس، اور دھرم کی بنیادوں پر نفرت کرتے ہیں ۔ ‘‘
’’ وجئے۔۔۔! ‘‘ پروفیسر نے کہنا شروع کیا ، ’’ کچھ تو راج نیتی کا کھیل ہے ہے اور بڑا کارن گیان کی کمی اور اس سے جنم لینے والا اندھکارہے ۔ ہمیں اس اندھکارکے وِرودھ یدھ کرنا ہوگا ۔ ۔ ‘’
’’ اور سر اس یدھ کا ہتیار کیا ہوگا ؟ ‘’
مسٹر سوامی کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی اورانھوں نے جیب میں سے اپنا قلم نکالا اوراسے سب کو دکھاتے ہوئے کہا، ’’ یہ ۔۔۔اس میں بڑی شکتی ہے ۔‘‘
یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ بس قلعہ تورنا کے سامنے رُک گئی اور سب جلدی جلدی بس سے نیچےاترنے لگے ، یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی قلعہ ہے ۔ ٹوٹی پھوٹی فصیلیں، اور بلندی پر بالا حصارگھنے درختوں سے گھرا ہوا ، وجئے چاروں طرف گھوم کر دیکھ ہی رہا تھا کہ وہاں پر موجود ایک مندر کے شکستہ عمارت کی دیوار کے اوپراسے تین چار فٹ اونچا ایک پیپل کا درخت نظر آیا ۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ،اس نے آہستہ سے کہا، ’’ یہاں بھی اس ویرانے میں آپ موجو د ہیں ۔ ‘‘ اور وہ مندر کی طرف جانے لگا تواس کے پیچھے سبھی چلے آئے ۔ وہ درخت کے پاس پہنچا ،اسے چھو کر دیکھا اور پھر پوچھا، ’’ سر میں نے آج تک اس پیڑ کا بیج نہیں دیکھا لیکن سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ کسی بھی قدیم عمارت یا ٹوٹے پھوٹے کھنڈروں کی دیواروں میں کیسےاگ آتا ہے ؟ ‘‘
پروفیسر سوامی جہاں کھڑے تھےانھوں نے وہیں سے کہنا شروع کیا ، ’’ تم لوگوں کی طرح میں نے بھی اس کے بیج کو نہیں دیکھا ، اور حیرت ہے کہ ہم آم کے پیڑ، نیم کے جھاڑ ، کئی پرکار کے پھلوں اور سایہ دارپیڑوں کو لگاتے ہیں،ان کی رکشا کرتے ہیں ،ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں کنتومیں نے کبھی کسی کو پیپل کا بن تیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا ، پھر بھی یہ پیڑ مہا کال سے ہندوستان میں برابراگ رہا ہے ۔ بلکہ جانکاروں کاتو یہ بھی کہنا ہے کہ یہ موہنجوڈارو اور ہڑپا کے شہروں میں بھی تھا ، ہندو مت میں اسے اتی پوتر پیڑ مانا جاتا ہے ۔ پراچین کال ہی سے اس کی پوجا کی جا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھگوان وشنو نے اس میں بسیرا کیا تھا ، اس لیے اس کے نیچے جو بھی پرارتھنا کی جاتی ہے وہ سیدھےان تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی پیڑ کے نیچے بھگوان وشنو کا جنم ہوا تھا اور اسی پیڑ کے نیچے بھگوان کرشن نے یہ کہتے ہوئے کہ میں پھر ایک بار اس دھرتی پر آؤں گا، اپنی زندگی کی انتم شواس لی تھی۔ ‘‘
’’ لیکن سر یہ تو بتائیے یہ آخر قدیم کھنڈروں کی دیواروں ہی سے کیوں اپنا سر باہر نکالتا ہے ؟ ‘‘
’’ اس کا جواب تو میرے پاس بھی نہیں ہے ۔ لیکن ہمیں اس بات پر بھی اوشیا دھیان کرنا چاہیے ، ‘‘ پروفیسر نے تیزی سے قلعہ کی عمارت کی طرف قدماٹھایا اوران کی تقلید میں سب کے قدم بھیاٹھ گئے ۔
پک نک سے واپسی کے بعد وجئے اپنے مشن سے جٹ گیااور ٹھیک چوتھے دناس کا پہلا مضمون ’ انسانیت اور مذہب ‘ اخبار میں شائع ہوگیا، سارے شہر میں اس کے مضمون کی دھوم تھی اور گھر میںاس پر ڈانٹ اور پھٹکار برس رہی تھی ،اسے اپنے مقصد میں کامیابی کی بھرپورامید نظر آرہی تھی۔ چنانچہ اس کے بعداس کے مضامین کا سلسلہ دراز ہوگیا اور پنڈت روی شاستری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ایک دن دونوں آمنے سامنے آگئے ۔ باپ نے پھٹکارا، ’’ تم ہندو مت کےاصولوں کے خلاف آگاگل رہے ہو ؟ ‘‘
اور بیٹے نے جواب دیا ، ’’ میں ہندو مت کی صحیح تصویر پیش کر رہا ہوں ، البتہ برہمنوں کے اپنے بنائے ہوئے خود ساختہاصولوں سے لوگوں کو با خبر کر رہا ہوں ۔ ‘‘
’’ تم ہندو مت کے بارے میں کیا جانتے ہو ؟ ‘’ باپ نے کھاجانے والی نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا
’’ وہی جو آپ نے اپنے پرو وچنوں کے ذریعے سمجھایا ہے ۔ ‘‘اس کی گردن جھکی ہوئی تھی اور وہ کہہ رہا تھا ، ’’ آپ ہی نے مہابھارت کے حوالے سے ایک دن بتایا تھا کہ دھرم کیا ہے ؟ ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنا ،ان کی خدمت کرنا اوران کو خوش کرنا، کسی کو جسمانی یا روحانی اذیت پہنچانا یہ پاپ ہے ۔ جیسے ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ساتھ اچھا برتاؤ کریں ،اسی طرح ہمیں بھی دوسروں کے ساتھ ویسا ہی اچھا برتاؤ کرنا چاہیے ۔ ۔۔ پتاجی میں نے ان باتوں کے خلاف تو کبھی کچھ نہیں لکھا ۔ ‘‘
’’ لیکن برہمن واد ہماری سنسکرتی ہے ۔ ‘‘
’’ اور سنسکرتی مذہب کیسے ہو سکتی ہے پتاجی ۔ ‘‘
پنڈت جی کی تو طبیعت چاہتی تھی کہ وجئے کو مار مار کراس کا دماغ درست کردیں لیکن وہ دانت پیستے ہوئے غصے سے باہر نکل گئےان کے جاتے ہی ماں وجئے کے سامنے آکرکھڑی ہوگئی، ’’ پُتر ۔۔۔ دھرم یہ بھی نہیں ہے کہ ماتا پتا کا دل دُکھاو، جن نئے سنسکاروں کی بات تم کر رہے ہو، تو یہ بھی جانتے ہو کہ ماتا پتا کا بھی تم پر قرض ہے ۔انھوں نے تم کو پال پوس کر بڑا اس لیے نہیں کیا کہ تم اپنی شہرت کے لیےان سے وِدروہ کرو ۔ ‘‘
’’ ماں ۔۔۔ ‘‘اس نے ماں کی آنکھوں میں دیکھا ، ’’ میں کوئی غلط کام نہیں کر رہا ہوں ، اس خاندان میں ، اس دیش میں جودھرم کے نام پر ادھرم ہو رہا ہے ۔ میں اس کے خلاف ہوں ، پتاجی کے خلاف نہیں ۔ تم میری طرف سےانھیں بھگوان کرشن کے یہ الفاظ سنا دینا کہ ادھرم کو دیکھنے کے بعد بھی جو مون برت رکھے وہ بھی ادھرمی ہے ، اور میں ۔۔۔ ادھرمی رہنا نہیں چاہتا ۔ ‘‘
ماں اسے دیکھتی رہ گئی ۔
پنڈت جی اپنے بڑے بیٹے سے ناامید ہو چکے تھے ۔ اس لیےانھوں نے طئے کرلیا تھا کہ اب وہ اپنے چھوٹے بیٹے اجئے شاستری کو اپنا جانشین بنائیں گے۔ لڈّو کھانے والا اجئے بھی اپنے باپ کو اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ زندگی کے دیگر لڈّو بھی ممکن ہیں صرف باپ کی ہاں میں ہاں ملانے سے۔چنانچہ وہ پوری طرح باپ کے نقشِ قدم پر چلنے لگا تھا ۔
وجئے نے اپنے دوستوں کی مدد سے ایک ڈرامہ کمپنی قائم کرلی تھی اور اس کے لیے خود ہی پہلا ڈرامہ ’’ شکریہ ڈاکٹر خالد ‘‘ لکھا ، اس ڈرامے کی کہانی کچھ اس طرح تھی کہ ایک فساد زدہ شہر میں ڈاکٹر خالد پھنس جاتا ہے اور ایک کٹّر ہندو خاندان کے گھر میں پناہ کی خاطر داخل ہوتا ہے ۔ گھر کے نوجوان خالد کا قتل کر دینا چاہتے ہیں کہ ٹھیکاسی وقت ماں اطلاع دیتی ہے کہ بیٹی دردزہ سے تڑپ رہی ہے ۔اسے دواخانہ لے جانا ضروری ہے ۔ شہر میں کرفیو لگا ہوا ہے اور دواخانے تک پہنچنا نا ممکن ہے ۔ تب ڈاکٹر خالد بتاتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ہے ۔ وہ یہ خدمت انجام دے سکتا ہے ۔ تمام شکوک کے باوجود زندگی اور موت سے جوجھتی ہوئی زچہ کو اس کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ ڈرامے کے کلائمکس پر ڈاکٹر خالد نومولود کو اپنے ہاتھوں میںاٹھا کر باہر لاتا ہے ۔ باہر خالد کو مارنے کے لیے تلواریں اور بھالے موجود ہیں ۔ ڈاکٹر بچے کو اوپراٹھاتا ہے اور کہتا ہے ،جس طرح کرشن نے کونس کے محل میں اور موسیٰ نے فرعون کے دربار میں پل کر ظلم کا خاتمہ کیا تھا ،اسی طرح یہ بچہ آگ اور نفرت کے خونخوار موسم میں پیدا ہوا ہے اور مجھےامید ہے کہ یہی بچہ ایک دن بڑا ہوکر اس دنیا سے اس موسم کا خاتمہ کرے گا ۔ سارے کردار تلوار اور بھالے پھینک کر اسے گلے لگا لیتے ہیں۔
وجئے شاستری کی اپنے مقصد کی یہ پہلی اڑان تھی ۔ اباسے ایسے بہت سارے موضوعات نظر آرہے تھے ۔ جن کے باعث وہ ملک کے ماحول کو بدل سکتا تھا۔ وہ ایک کے بعد ایک ڈرامہ پیش کرتا گیا ۔ اخباراتاس کے کام کو سرارہے تھے ۔اس کی شہرت چاروں طرف پھیل رہی تھی ملک کی ہر ریاست اور ہر شہر بضد تھا کہ وہ اپنا شو یہاں پیش کرے ۔ اس سارے مشن میں سکینہاس کے ساتھ تھی ۔ یہ ساتھ پہلے قربت میں اور پھر قربت دونوں کو ایک کر گئی ۔ یہ اطلاع جب پنڈت روی شاستری تک پہنچی توانھوں نے وجئے کے لیے اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے ۔
وقت کسی تند وتیز دریا کی مانند بہتا رہا ، ملک میں کئی تبدیلیاں آگئی تھیں ، ایک بڑا طبقہ اس بات کو جان چکا تھا کہ اس دنیا کے لیے انسانیت کتنی ضروری ہے ۔ مذہبی تنگ نظری کا اژدھا اگرچہ اب تک زندہ تھا لیکن اس کی رفتار بڑی حد تک سست ہو گئی تھی،اورکٹّر اجئے شاستری بھی تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو کی ملازمت میں آگیا تھا ، اوراس کی ملاقاتیں مختلف دانشور افرادسے ہونے لگیں ۔ان کے افکار و خیالات سن سن کراس کے ذہن کے دریچے بھی کھلنے لگے ۔تباس کے بھی سمجھ گیا کہاس کا بھائی غلط نہیں تھا ۔اسے بھائی کی شدت سے یاد آنے لگی، اور وہاس سے ملنے کے لیے بے چین ہوگیا ۔
اور آخر ایک دن ، وہ بھائی سے ملنےاس کے گھر پہنچا ۔ وہ دروازے کے سامنے ایک چھوٹے سے چبوترے پر شطرنجی بچھائے اخبار میں جھکا ہوا تھا ۔اجئے نے دیکھااس کے بالوں میں سفیدی آگئی تھی ،بدن بھی بہت کمزور دکھائی دے رہا تھا ۔اس کے بدن پر معمولی سا نہرو شرٹ اور تنگ پاجامہ تھا ۔اس نے آستہ سے مخاطب کیا ، ’’ بھیا ۔۔۔! ‘‘
اور جونہی وجئے نے اخبار سے سراٹھایا تواس کے سامنے اجئے تھا ، وہ خوشی سے چلایا ، ’’ اجو ۔۔۔ میرے لاڈلے چھوٹے بھائی ۔ ‘‘
اجئےاس سے بے تحاشہ لپٹ گیا اور دونوں بھائیوں کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے ۔ دونوں کی گرفت ایک دوسرے پر مضبوط ہوگئی۔وجئے کبھی اپنے چھوٹے بھائی کے سر پر ہاتھ پھیرتا، کبھیاس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیتا، کبھی اس کی پیشانی کے بوسے لیتا ، کبھی اس کی آنکھوں میں جھانکتا۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن زبان ساتھ نہیں دے ر ہی تھی ۔ اجئے کی حالت بھی غیر تھی بساس کی آنکھوں سے آنسووں کی برسات ہورہی تھی ۔ جانے کتنا وقت لگا دونوں کو سنبھلنے میں ، دونوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہوا ۔آخر وجئے نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے پوچھا ، ’’ اجو ۔۔۔ پتاجی کیسے ہیں ؟ ‘‘
’’ بہت بوڑھے اور کمزور ہوگئے ہیں ۔ ‘‘
’’ ہاں۔۔ ۔ یہ تو ہونا ہی تھا ۔! ‘‘ وجئے زمین کو گھورنے لگا ، ’’ اپنی راہ پر چلتے ہوئے میں نےانھیں بہت دُکھ دئیے ہیں ۔ ‘‘
’’ ماما اب باڑے میں آنے لگے ہیں ۔‘‘
وجئے نے چونک کر بھائی کی طرف دیکھا۔دیوار پراگا چھوٹا سا پیپل کا درخت ہواؤں سے ڈول رہا تھا۔
’’ ہاں بھیا وہ زبان سے کچھ نہیں کہتے لیکن میں نے محسوس کیا ہے وہ اکثرواڑے کے بڑے دروازے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں جیسے کسی کا انتظار کر رہے ہوں ۔ ‘’
وجئے نے ایک لمبی سانس چھوڑی، ’’ اجو ۔۔۔ میں کیا اپنی صورت دکھاؤںان کو ، بس نظریات کا اختلاف تھا ، جسے میں جوانی کی نادانی میں ٹھیک سےانھیں سمجھا نہیں سکا اور وہ اپنے مذہبی تنگ خول سے باہر کی دنیا دیکھنے کے لیے راضی نہیں ہوئے ۔ ‘‘
’’ کون آیا ہے ؟ ‘‘
اجئے نے حیرت سے اور وجئے نے مٹھاس بھری نظروں سے سکینہ کی طرف دیکھا ، ’’ یہ تمہارا دیوراور میرا چھوٹا بھائی اجو ۔۔۔ اجئے شاستری ہے ۔‘‘
اجئے نے پورے خلوص کے ساتھ ہاتھاٹھا کر آہستہ سے کہا ، ’’ بھابھی جی سلام ۔ ‘‘
’’ جُگ جُگ جیو دیور جی ۔ ‘‘ سکینہ نےاس کی بلائیاں لیں ۔
’’ لیکن بھا بھی جی یہ کیا حالت کردی ہے آپ نے بھیا جی کی ، وقت سے پہلے ہیانھیں بوڑھا کر دیا ۔ ‘’
سکینہ نے ایک لمبی آہ بھری ، ’’ کیا کہوں دیور جی ، ایک تو جان سے زیادہ محنت، نہ کھانے کا ہوش نہ آرام کا خیال، اور پھر ہر رات پتاجی ، ماتاجی اور گھر کی یاد میں ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو ،ان کی محبت کا ایک ایک لمحہ یاد کرتے ہیں، ایک عجیب کشمکش کی زندگی جیتے ہیں تمہارے بھیا ، اور پھر اس سے نکلنے کے لیے بے تحاشہ شراب بھی پینے لگے ہیں ۔ ‘‘
اجئے نے بھائی کی طرف دیکھا تو وہ گویا ہوا ، ’’ اجو ۔۔۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے ۔ میں نے یہ سب کیوں کیا ، کیا کر پایا میں ؟ آج بھی سماج وہیں کھڑا ہے جہاں کل کھڑا تھا ۔ ‘‘
’’ ایسا نہ کہیے بھیا جی ۔۔۔ آپ نے جو بھی کیا وہ بہت کچھ ہے ۔ کچھ لوگ ہی سہی لیکن وہ آپ کی بات تو سمجھ پائے ، بھیا جی۔۔۔ تبدیلی کا خیال ایک ہی لمحے میں آتا ہے ، لیکن تبدیلی آنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں ۔ ‘‘
’’ بہت صحیح کہا میرے بھیا ۔ ‘‘ وجئے نے ایک لمبی سانس لی، ’’ لیکن میں سمجھتا تھایہ کام بہت آسان ہے اور بس کود پڑا تھا ۔‘‘
’’ بھیاجی ۔۔۔ یہ کام سب کے بس کا بھی نہیں تھا، پھر بھی آپ نے اس کی شروعات کی ،لوگوں کو ایک دِشا دکھائی، یہ اب رکنے والا نہیں ہے ، پھر آپ نے اس کی خاطر کیا کچھ نہیں تیاگ دیا ،اورآج تواس کے پھل بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ‘‘
وجئے کے چہرے پر جانے کیوں مایوسی سی چھا گئی تھی اوراس نے آہستہ سے کہا ، ’’ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے ، سب کچھ ویسا ہی ہے جیسے پہلے تھا۔ ‘‘ وہ آسمان کی جانب دیکھنے لگا تھا ۔اور اجئے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے اپنے بھائی کو یقین دلائے کا س نے کن مشکلات میں رہتے ہوئے اپنا کان انجام دیا ہے، اب تو بہت کچھ بدل گیا ہے۔
تینوں کے درمیان خاموشی چھاگئی ۔ شاید اپنے ماضی کے اوراقالٹ رہے تھے کہ اچانک اجئے کی نظر وجئے کے مکان کی دیوار کی طرفاٹھ گئی اور سب کے موڈ کو بدلنے کے لیے وہ شوخی بھرے لہجے میں گویا ہوا ، ’’ بھیا جی ۔۔۔ یہاں بھی آپ کی دیوار کے بیچ سے پیپل کا پودا جھانک رہا ہے ۔ ‘‘
وجئے کچھ لمحوں تک پیپل کےاس چھوٹے سے پودے کی طرف دیکھتا رہا،پھر آہستہ آہستہاس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی،اوراس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، ’’ اجو ۔۔۔ آج میں سمجھا، اس پیپل کے پودے کو ، یہ بھگوان کرشن کا دوت ہے، دھرتی کے باسیوں کے لیےان کا سندیس لے کر آتا ہے ، الیکن ہماس کے سندیس کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہاں تک کہ ایک بار میں نے اپنےاستاد سے بھی پوچھا تھا کہ سر یہ پیپل کا پودا قدیم بوسیدہ عمارتوں ہی میں کیوں پیدا ہوتا ہے ؟ یہ کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔اس وقت میرےاستاد بھی اس کی وجہ نہیں بتا سکے تھے ، لیکن میری سمجھ میں آگیاکہ ، یہ پرانی بوسیدہ روائیتوں سے باہر نکلنے کاسندیس لے کر آتا رہا ہے اور ہم ناسمجھی میں اسے ہی کاٹنے کی کوشش کرتے رہے ۔ میرے بھیا کچھ دنوں سے میں ہمت ہار بیٹھا تھا لیکن اب پھر سے ایک نئی طاقت کے ساتھ یہ کام شروع کردوں گا ۔ ‘‘
اجئے نے بھائی کی جانب فخریہ نظروں سے دیکھا ،اسے لگا، جیسےاس کا بھائی خود رفتہ رفتہ پیپل کے درخت میں تبدیل ہورہا ہے اور درخت اونچا بہت اونچا ہوتا جا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ پورے آسمان میں پھیل گیا ہے ،اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے اور بھائی کے آگے پوری عقیدت کے ساتھ جھک گیا ۔