بھور بھئی جاگو
وہ اپنے آفیس، آثار قدیمہ کے ٹیرس پر آنکھوں پر دور بین لگائے ایلورہ کی پہاڑیوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانکاس کی نظروں میں پہاڑ کی بلندی سے غار کے دامن پر گرتے ہوئے آبشار پر ٹھہر گئیں۔ سورج غروب ہونے کی تیاریوں میں تھا اوراس کی نرم سنہری کرنیں زمین سے وداعی حکم کی منتظر تھیں۔ کرنوں کے ساتھاس کی نظریں آبشار کے آخری حصے پرپہنچیں تو پلک مارنا بھول گئیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ایلورہ کے غاروں سے نکلی کوئی حسین سنگی مورت پورے قد کے ساتھ آبشار کے نیچے آگئی ہے۔ سانولی رنگت پر پڑنے والی سنہری کرنوں سے بدن جھلملا رہا تھا، اوراس کی آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں، اس کی پشتاس کے جانب تھی اور بھیگے ہوئے سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے کمر کے قوسین بھر پور شباب کا اعلان کر رہے تھے، وہ بس ایک لمحے کے لیے پلٹی تھی اوراس کے بدن میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی تھی، وہ بار بار ادھرادھر بھی دیکھ رہی تھی کہ کہیں کوئیاسے دیکھ تو نہیں رہا ہے۔ دور بیناس کی آنکھوں سے چمٹ گئی تھی اور وہ قدرت کی صنائی کا نادر نمونہ دیکھ رہا تھا۔
وہ ٹیرس سے نیچے اتر گیا لیکن اس کی آنکھوں میں وہ منظر ٹھہر گیا تھا۔ کیا قد و قامت تھی، اور کیسا حسین پر کشش چہرہ، سر پر خوب گھنے بال، غلافی آنکھیں، پتلی نازک سیاٹھی ہوئی ناک، پنکھڑیوں جیسے لب، صراحی دار گردن، متناسب سینے کے ابھار اور نہایت پتلا پیٹ، خدا جانے وہ کون ہوگی؟ اس قدر تراشا ہوا بدناس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کے پورے بدن میں عجیب سی سرشاری کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ اسی نشے میں اپنی موٹر سائیکل تک پہنچا اور پھر کینٹین کی طرف روانہ ہو گیا۔
وہ گیلے کپڑوں میں جیسے ہی سڑک تک پہنچی، اس نے پلٹ کر ایک بار آبشار کی طرف دیکھا تھا۔ اس کے ذہن میں اس کا باپا (باپ) آگیا جواسے بچپن میں ندی پر لے جاکر نہلایا کرتا تھا، اور کہتا تھا، ’’میری کنجو پائتما لاکھوں میں ایک ہے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، اور بچپن آنکھوں میں بھر آیا، اس وقتاس کے گلے میں کان میں ہاتھ پیروں میں نقلی زیورات نہیں، سونے کے زیو رات ہوتے تھے، کمر پر مخملی کپڑا، اور بدن پر ریشمی کرتا پہن کر وہ کیسے اترایا کرتی تھی۔ پھراسے اپنیاماّ (ماں) یاد آگئی جو ہردم ٹوکتی تھی کہ پائتما تٹم (اوڑھنی) کو سر پر ڈال۔ وہ اپنے آپ میں پھر ایک بار مسکرائی اوراس کے گالوں میں ڈمپل بن گئے۔ ٹھیکاسی وقت ایک موٹر سائیکل تیزی سے اس کے پیچھے سے آگے بڑھی اور پھر دس قدم کے فاصلے پر رک گئی اوراس پر سوار نوجوان نے پلٹ کراس کی طرف دیکھنا شروع کیا، کنجو پائتما کی جیسے سانسیں رُک سی گئیں، اور بے اختیاراس کی زبان سے نکلا، ’’یا مُیو دینے‘‘ (یا حضرت محی الدین)اس نے اپنی بڑی بڑی پلکوں کو اوپراٹھایا لیکن خوف کے مارے اس کی آنکھیں پوری طرح کھل نہ سکیں۔ نوجوان کے چہرے پر نہایت میٹھی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ کنجو پائتما نے گردن جھکادی اور اپنی چال چلتی ہوئی موٹر سائیکل سے چندقدم ہی آگے بڑھی تھی کہ موٹر سائیکل کے غرانے کی آوازابھری اوراس کے اوسان خطا ہو گئے یا مُیو دّینے کیا یہ میرا اغوا کرلے گی، لیکن موٹر سائیکل زن کے ساتھاسے پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے نکل گئی۔ وہاسے دور تک جاتی ہوئی دیکھتی رہی۔ وہ سوچنے لگی، کون ہوگا وہ؟ کیوں رُک کراسے دیکھ رہا تھا؟ کیا وہ۔۔۔ خوف ایک بار پھراس پر مسلط ہونے لگا تھا، یامُیو دینے۔۔۔ دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھوں میں اس کا چہرہ در آیا۔ محبت بھری نظروں سے دیکھنے والیاس کی آنکھیں، وہ آنکھیں بُرے ارادوں کی تو نہیں ہو سکتیں۔۔۔ جو بھی ہو اجنبی جگہ پر تو کچھ بھی ہو سکتا ہے؟اپنے گھر کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر مُڑ نے سے پہلے اس نے ایک بار پھر سڑک کا جائزہ لیا، سڑک سنسان تھی، اس نے اطمینان کا سانس لیا، اور وہ اپنی راہ پر لگ گئی۔
کنجو پائتما کے دماغ میں پھر ایک بار ماضیابھرآیا تھا، وہ ا پنے باپا کے ساتھ کیرالہ کے ایک دیہات اندلور میں رہتی تھی۔ اس کے باپا کی بڑی کھیتی تھی جن میں ایک ناریل کا بغیچہ بھی تھا، سپاری کے بہت سارے درختوں کے ساتھ ہی ساتھ دس املی کے بھی پیڑ تھے اور کھیت میں چاول کی فصل بھی لہلہاتی تھی۔ وہ جب بھی اپنے باپا کے ساتھ بغیچے میں جاتی تو املی کے درختوں پر بیٹھی کو کتی کوئیلیوں کی سریلی آوازیں اسے بے حد پسند تھیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں ایک درخت سے دوسرے درخت تک جانااسے بہت اچھا لگتا تھا۔ اور جب برسات شروع ہو جاتی تو رم جھم پھواروں کا بھی وہ خوب مزہ لیتی تھی۔ تب کھیتوں میں عورتیں ٹخنے ٹخنے پانیوں میں چاول کی بوائی کرتی تھیں، وہ بوائی بھی کرتی جاتی تھیں اوران کے ہونٹوں پر رسیلے گیت بھی مچلتے تھے۔ کبھی کبھی کوئی عورت مٹی میں سنے ہوئے ہاتھوں سے اس کے گالوں کو چھوتی تھی تواسے بڑا مزہ آتا تھا۔ گاوں میں باپا کو لوگ مُسلیار بھی کہتے تھے کیونکہ وہ بیماریوں کا علاج تعویز وغیرہ سے کرتے تھے۔ دوائیں بھی بتاتے تھے۔ ان کی بڑی عزت تھی۔ وہ بڑی مسجد کی جماعت کے صدر بھی تھے اور بانگی اور امام صاحب کو بدلنے کا حق بھیان کے پاس تھا، لیکن اماّ کے مرنے کے بعدان کے پانچ بھائیوں نے اس کے باپا سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ لوگوں نے کورٹ کچیری کا مشورہ دیا تھا لیکن باپا تیار نہیں ہوئے۔ ان کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ سب کچھ وہیں چھوڑ چھاڑ کر اوراسے اپنی پیٹھ بٹھاکر وہ وہاں سے نکل گئے تھے۔ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں جہاں ان کو کوئی پہچانتا نہ ہو، جانے کہاں کہاں بھٹکتے ہوئے وہ منگلور میں پہنچے تھے۔ وہاں ان کے تعویز وں پر لوگوں کو بھروسہ نہیں آیا تو وہ کریم نگر میں آباد ہو گئے۔ بہت برسوں تک وہیں رہے۔ میں بھی بڑی ہو گئی تھی اور گلی کے لونڈے جب بیماری کا بہانہ بنا کر آنے لگے تو باپا پریشان ہو گئے۔ پھر ایک دن وہاں کے ایم۔ ایل۔ اے کا بگڑا ہوا بیٹا بھی اسی بہانے سے آیا تو باپا نے کریم نگر کو بھی چھوڑ دیااور اس چھوٹے سے مقام ایلورہ میں آگئے اور یہاں کے لوگوں کا علاج کرنے لگے تھے۔ ان کی شہرت قریب کے دس بیس دیہاتوں میں بھی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے آمدنی بھی اچھی خاصی ہونے لگی تھی۔ یہاں ان کی پھر سے عزت بن گئی تھی اور وہ مجھے یہاں ہر طرح سے محفوظ سمجھتے تھے۔
کنجو پائتمااس دن کے بعد پھر کبھی آبشار کے قریب بھی نہیں پھٹکی۔ اس دن بھی بس ایسے ہی وہ غاروں کو دیکھنے چلی گئی تھی لیکن جونہی اس کی نظر آبشار پر پڑی تواسے اندلور کی پہاڑی سے گرتا ہوا وہ آبشار یاد آگیا جواس کے کھیتوں سے بہت قریب تھا اور باپااسے اکثر وہاں لے جاتے تھے اور وہ دونوں بھی آبشار کے نیچے نہایا کرتے تھے۔ بس اسی یاد نے اسے وہاں پر نہانے کے لیے مجبور کیا تھا۔ اوراسی دن وہ نوجوان۔۔۔ خالی وقتوں میں اس نوجوان کا چہرہ اوراس کی وہ میٹھی مسکراہٹ بھیاسے دو چار بار یاد آئی تھی لیکن اس دن کے بعد سے تو وہ نوجوان پھر کبھی نظر نہیں آیا تھا۔
باپا باہر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ دوسرے کسی گاؤں میں مریض تھا۔ دروازے پران کی سائیکل کھڑی تھی اور پائتمااس کی صفائی کر رہی تھی کہ اچانک اس کے ذہن میں اس کا گاؤں اندلور آگیا، اوراس نے د ہیں سے پوچھا، ’’باپا ہم کیا ساری زندگی ایسے ہی بھٹکتے رہیں گی۔‘‘
باپ نے اس کی طرف گہری نظروں سے دیکھا۔
’’باپا میرے کو اپناادھر کا گھر بہت یادآتی۔‘‘ وہ تقریبا روہانسی ہو گئی تھی۔
وہ تڑپاٹھا، اپنی جگہ سے اٹھااوراس کے پاس آگیا، اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوا، ’’پائتما یہ دھوپ اور چھاؤں کا کھیل ہم اپنی مرضی سے نہیں جھیل رہی، وہ اگر چاہیں گی تو چھاؤں بھی آجائیں گی، بیٹی دکھ بھٹکنے کا نہیں ہوتی، فکر میرے کو تیری ہے۔ میں تیرے بڑے ماما کو ایک چٹھی بھی لکھی تھی کہ تو اب بڑی ہو گئی، مگروہ جواب ہی نہیں دی۔‘‘ اس کے لبوں سے ایک سردآہ نکلی۔
پائتما تڑپ کر رہ گئی اور پھر باپ کے موڈ کو بدلنے کی خاطراس نے پوچھا، ’’باپا۔۔ شام میں کیا کھائیں گی؟‘‘
باپا وہاں ہوتے ہوئے بھی وہا ں نہیں تھا۔ بے خیالی میں ان کی زبان سے نکلا، ’’بائی تّنٹرا کھالیں گی۔‘‘
وہ ہنسنے لگی، ’’باپا ہم کیرالہ میں نہیں مراٹھواڑہ میں رہتی، یہاں بائی تنٹرا بولے نگی تو کون سمجھے گی، بیگن بولیں گی تو بیگن ملے نگی۔‘‘
باپا بھی ہنسنے لگے تھے۔ انھیں یہاں آئے ہوئے بھی کا فی دن ہو گئے تھے، لیکن وہ اب بھی وہی لباس پہنتے تھے۔ لنگی کا سرا بائیں جانباڑس کر باندھتے۔ سر کے پورے بال کٹواتے تھے۔ داڑھی میں اپنی مرضی کا خط بنواتے، ان کے کرتے کا انداز بھی وہی ہوتا تھا جو اندالور میں ہوا کرتا تھا۔ اسی کو وہ اصلی مسلمانی مانتے تھے۔ نمازوں کی پابندی کرتے اور رات گئے بہت دیر تک توبہ کا ورد کرتے تھے۔
بیگن خرید کر جیسے ہی وہ اپنے گھر کی طرف جانے لگیاس کے کانوں میں موٹر سائیکل کی آواز گونجی اوراس کے قدم وہیں ٹھٹھک گئے۔ موٹر سائیکل اس سے کچھ قدم آگے جاکر رک گئی تھی۔ اوراس پر وہی نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ خوف نے پھر ایک باراسے سر سے پیر تک لرزا دیا اور بے اختیاراس کے دل نے کہا، ’’یامُیو دینے مدد‘‘ وہاسے پھر ایک بار ویسی ہی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے پیر وزنی ہو گئے۔ اوراسے نوجوان کی نیت پر شبہ ہونے لگا۔ وہ کسی طرح قدماٹھاتی ہوئی راستہ طئے کرنے لگی۔ وہ نوجواناسی طرحاسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے پیچھے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا اپنے گھر میں داخل ہو گئی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ اس کے کان موٹر سائیکل کی آواز پر لگے ہوئے تھے۔ موٹر سائیکلاس کے گھر کے سامنے شاید رکی تھی، اسے ایسا محسوس ہوا تھا، کیونکہ پھراس کی آواز دور بہت دور ہوتی چلی گئی تھی۔
رات کوبہت دیر تکاسے نیند نہیں آئی۔ اس کے قریب ہی اس کے باپا سو رہے تھے۔ وہ شدید تدبذب کی شکار تھی، کبھیاس کا من کہتا کہ باپا کواس نوجوان کے بارے میں بتا دینا چاہیے، پھر وہ سوچتی، لیکن بتاوں کیا؟اس نے تو ایک لفظ بھی نہیں کہا، اور کبھی وہ سوچتی، لیکن اس نے اپنی موٹر سائیکل تو روکی تھی نا؟ یہ بات بھی تو اچھی نہیں ہے؟ پھراسے خیال آیا، اگراس کی یہ بات سن کربا پا پھر کسی اور مقام پر ہجرت کے لیے نکل پڑے تو؟ تو کیا؟اس کا من یہاں سے نکلنا نہیں چاہے گا؟ وہ نوجوان پھر ایک باراس کی آنکھوں میں در آیا تھا اور وہی اس کی میٹھی سی مسکراہٹ، اس نے آہستہ سے کہا، ’’بدھو کہیں کی۔‘‘ پھر وہ خود ہی مسکرااٹھی، اور اپنی آنکھیں بند کرلیں، آنکھوں میں پھر وہی منظر بننے لگا۔ سوچ کے دائرے اسے جانے کہاں کہاں لے جانے لگے اور وہ ان ہی باتوں کو سوچتے سوچتے نیندکے آغوش میں پہنچ گئی۔
دوسرے دن پائتما بیٹھک میں اکیلی بیٹھی چاول چُن رہی تھی کہ وہ نوجوان آگیا۔ اسے دیکھتے ہیاس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ خوف زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی،
’’باپا صاحب گھر میں ہیں؟‘‘
’’باپا۔۔۔؟‘‘ اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں نے سنا، یہاں سبانھیں باپا ہی بلاتے ہیں نا؟‘‘ اس کی نظریں نیچی تھیں، ’’میں بھیانھیں یہی کہوں گا نا؟‘‘
’’وہ صرف میں کہتی سمجھی،‘‘ اس کی آواز میں شرارت تھی، ’’وہ تو ابھی گھر میں نہیں۔ کام بولو، وہ آئینگی تو میں بتا دیں گی؟‘‘ اس نے اپنی حالت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’تھاان سے ایک ضروری کام۔‘‘ وہاس کی طرف دیکھ کراسی طرح مسکرایا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ اس نے غور سے اس کی طرف دیکھا، اور سوال کیا، ’’تم مسلمان؟‘‘
نوجوان نے ا س سوال پر چونک کراس کی طرف دیکھا، ’’ہاں۔۔۔ مسلمان تو ہوں۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’میرے کو تم اصلی مسلمان نہیں لگتی،‘‘ اس نے دیدے مٹکائے
’’اصلی مسلمان کیسا ہوتا ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے میں کھڑی ہو گئی، ’’میرے باپا بولتی اصلی مسلمان وہ ہوتی جوان کے جیسی کپڑے پہنتی۔ داڑھی رکھتی اور سر کے بال منڈھاتی۔ نمازوں کی پابندی کرتی اور رات دیر گئے تک توبہ کا ورد کرتی۔‘‘
نوجوان کا رنگ فق ہو گیا۔ اس نے اپنے سر کے گھنے بالوں پر ہاتھ پھیرا، ’’واقعی اصلی مسلمانی بہت مشکل ہے۔‘‘ پھراس کے ہاتھ اپنے صفا چٹ چہرے پر پھسلے، ’’اس سے کچھ کم ہو تو نہیں چلے گا؟‘‘
’’بالکل نہیں چلے گی۔ اللہ کے رسول فرمائی، مسلمان وہی جودین میں پورے پورے آئی۔‘‘
اس نے شوخی سے کہا، ’’تب تو آپ کا حصول بہت مشکل ہے۔‘‘
’’کیا بولی؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ مطلب تم شادی بھی اپنے باپا جیسے کسی مسلمان سے ہی کروگی۔‘‘
پائتما نے اس کی طرف گھور کر دیکھا تو وہ ڈر گیاا اور ہکلاتے ہوئے گویا ہوا، ’’ہا۔۔ ہاں۔۔۔ بالکل۔۔۔ ویسے ہی اصلی مسلمان سے کرنا چاہیے۔‘‘ اور پھراس نے گاڑی کو کِک لگائی اور تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔ پائتما کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
پانچ بجے اس نے دوربیناٹھایا اور ٹیرس پر پہنچ گیا۔ سورج کی ویسی ہی کرنیں تھیں۔ آبشار کا پانی بھیاسی طرح غار کے دامن پر گر رہا تھا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ بہت دیر تک ادھرادھر نظریں گھماتا رہارہا، اورآخراس نے سوچ لیا کہ اسے اصلی مسلمان بننا ہی پڑے گا۔
اس واقعے کے آٹھویں دن باپا کے کہنے پر وہ چائے اور پانی لے کر بیٹھک میں پہنچی تو ٹھٹھک کر رہ گئی۔ باپا کے سامنے وہی نوجوان بیٹھا ہوا تھا، اس کا سر منڈھاہوا تھا، چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی اور بدن پر باپا جیسا لباس بھی تھا، اور وہ اپنے بارے میں بتا رہا تھا، ’’میرا نام احمد علی ہے، میں یہیں آثار قدیمہ کے آفیس میں کیئرٹیکر Care takerکی نوکری کرتا ہوں، پچھلے کئی دنوں سے مجھے عجب سی بے چینی کی شکایت ہو گئی ہے۔‘‘
پائتما نے دل ہی دل میں کہا بہانے باز کدھر کی، مسلمان بن کر آگئی، جھوٹا، اور پھر وہاں سے باورچی خانے میں چلی گئی، لیکن اسے عجیب سی مسرت ہو رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی بیٹھک میں بیٹھی رہے لیکن اس سے پہلے وہ کبھی باپا کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھی نہیں تھی۔ اسے اپنے آپ پر بھی غصہ آرہا تھا کہ وہ ہمیشہ کیوں نہیں بیٹھک میں بیٹھتی رہی۔ باپا کی دوا سے اگراسے فائدہ ہو گئی تو کیا وہ دوبارہ آئیگی؟اس کے دل نے جواب دیا وہ بار بارآئے گی۔
لیکن وہ نہیں آیا، پائتما نے اس کا پور ایک ہفتہ انتظار کیا، اس کی خاطر وہ کئی بار سجی سنوری بھی، ریشم کا لہنگا بھی پہنا، اور اپنا پسندیدہ تٹم بھی اوڑھا لیکن وہ نہیں آیا، اس کے انتظار میں وہ گھنٹوں اداس بھی رہی، لیکن وہ نہیں آیا ہر راتاس کا تصور بھی کیا، اس کی میٹھی مسکراہٹ کو بھی محسوس کیا، اس کی خاطر گھر سے باہر بھی نہیں نکلی، مگراسے نہیں آنا تھا وہ نہیں آیا؟ کبھی کبھی اس نے اپنے آپ سے سوال بھی کیا کہ آخر وہاس کے لیے کیوں بے چین ہے۔ اپنے دل کی دلیلیں بھی سنی، لیکن دل پھر بھی نہیں مانا، وہ کئی باراس کے لیے باپا سے چھپ چھپ کر روئی بھی مگردل تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا۔ لیکن جب وہ نہیں آیا، تو آخر ایک دناس نے بھی سوچ لیا تھا کہ اب اگر وہ آئے گا تو وہ بھیاس سے بات نہیں کرے گی۔
بہت دنوں کے بعد جب وہ سامان خریدنے کے لیے گھر سے باہر نکلی تو وہاسے دور سے آتا ہوا دکھائی دیا، اسے دیکھتے ہی پھر ایک باراس کی وہی حالت ہوگئی۔ اس نے بھیاسے دیکھ لیا تھا وہ موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے اس کے قریب پہنچا، لیکن اس کے بدن پر اباس کے باپا جیسا لباس نہیں تھا۔ اس نے داڑھی بھی بنالیا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا، بہروپی اب کیوں آئی ہے؟ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اس کی آنکھوں میں وہی میٹھی سی مسکراہٹ تھی، پائتما نے آگے قدم بڑھایا تواس نے کچھ کہنا چاہا تو وہ رُکی نہیں اور ہ بازار میں داخل ہو گئی اور خواہ مخواہ بہت دیر تک بھاجی ترکاریاں خریدتی رہی، پھر جباسے اطمینان ہوگیا کہ اب تک وہ چلا گیا ہوگا تو وہ بازار سے نکلی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی۔
جب وہ اپنے گھر پر پہنچی تواس نے دیکھا وہاس کے گھر کے سامنے موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا تھا اوراس کی راہ تک رہا تھا۔ پائتمااسے نظر انداز کرتے ہوئے دروازے کی سانکل کھولنے لگی تواس کی آواز سنائی دی، ’’سنیے۔۔۔!‘‘
اس نے پلٹ کراس کی طرف دیکھا تو وہاسے ان ہی نظروں سے دیکھ رہا تھا، ’’کیا مجھے ایک گلاس پانی ملے گا؟‘‘
پائتمااس پر اپنا غصہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اگراس کے پاساس کے انتظار کی کوئی قیمت نہیں ہے تو اس کا جواب بھیاس کے پاس ہے۔ لیکن معاًاسے اما کی بات یاد آگئی کہ جو کسی کو پانی نہ پلائے اللہاس کا شمار یزیدوں میں کرے گا۔ اس نے آنکھوں کے اشارے سے جواب دیا، لاتی ہوں۔
وہ سامان کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی، سامان کو رکھا اور گلاس بھر پانی لے کر باہر آئی، وہاسی طرح کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ تیزی سے آگے بڑھا اوراس کے ہاتھوں میں سے گلاس لے کر ایک ہی سانس میں پورا پانی پی گیا، اور گلاساس کی طرف لوٹانے لگا تو وہ بولی، ’’تم کیسی مسلمان؟ تم یہ بھی نہیں جانتی، پانی کو تین سانسوں میں پینے کا حکم اللہ نے دی؟‘‘
وہ جواب میں صرف مسکرا رہا تھا۔
’’میں کیا ہنسی کی بات بولی؟‘‘ اس کی آنکھوں میں غصہ صاف نظر آرہا تھا۔
’’نہیں تو۔۔۔‘‘ اس نے موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے کہنا شروع کیا، ’’تم جتنی خوب صورت ہو، باتیں بھیاتنی اچھی کرتی ہو۔ تم توبہت اچھی ہو۔‘‘
اپنی تعریف سن کر پائتما کو بہت اچھا لگا۔ اباس کا بناوٹی غصہ بھی ختم ہوگیا تھا۔
’’ایک بات پوچھوں۔۔۔؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
’’کیا پوچھتی۔۔۔؟‘‘
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ یہ سوال پوچھتے ہوئے نوجوان کے چہرے پر ڈر بھی تھا اور تجسس بھی۔
وہ مسکرائی، ’’میرا نام کنجو پائتما ہے۔‘‘
’’کیا کیا کیا۔۔۔؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’پائتما۔۔۔؟ اب سنی تم؟‘‘ اس کی آواز قدرے اونچی ہو گئی تھی۔
’’پائتما۔۔۔؟ یہ کیسا نام ہے؟‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ اس کے چہرے پر پھر غصہ دکھائی دیا، ’’تم کیسی مسلمان ہو۔۔۔؟ تم رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کا نام بھی نہیں جانتی؟‘‘
اس نے منہ ہی منہ میں دوہرایا، ’’پائتما۔۔۔ پائتما۔۔۔ اوہ۔۔۔ فاطمہ۔۔۔ فاطمہ نام ہے تمہارا۔۔۔!‘‘
’’نہیں۔۔۔ پائتما۔۔۔ کنجو پائتما۔۔۔‘‘
’’میں سمجھ گیا۔۔۔‘‘ وہ پھر مسکرانے لگا، ’’واہ۔ واہ بہت ہی مبارک نام ہے تمہارا۔۔۔ کنجو پائتما۔‘‘
وہ خوش ہو گئی اوراس کے ساتھ وہ بھی مسکرانے لگی، ’’تمہارا بیماری اچھا ہوگئی؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ بالکل نہیں۔‘‘ اور پھراس نے اداس لہجے میں شعر پڑھا، ’’کوئی مجھ سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو، یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا۔‘‘
کنجو پائتما کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا لیکن لہجے کیاداسی سن کر وہ بھی سنجیدہ ہوگئی، اور کہنے لگی، ’’فکر کیوں کرتی۔ باپا کے علاج سے سب اچھی ہوجاتی، مگر جن کا پتہ گرجاتی، وہ اچھا نہیں ہوتی۔‘‘
’’پتہ گرجاتی۔۔۔؟‘‘ اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، ’’کہاں سے پتہ گرجاتی؟‘‘
’’تم کیسی مسلمان ہوتی؟‘‘ وہ جھنجھلا گئی اور دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی، ’’تم کچھ بھی مسلمانی نہیں سیکھی؟‘‘ وہاسے سمجھانے لگی، ’’دیکھو اوپر۔۔۔ جنت میں ایک بہت بڑا درخت ہوتی۔ شجرہ منتی۔۔‘‘
’’شجرہ منتی؟۔۔۔ اوہ تمہارا مطلب شجرۃالمنتہیٰ سے ہے۔
’’ہاں۔۔۔ اس کے پتوں پر دنیا کے سارے انسانوں کے نام اللہ لکھ کر رکھی، ہوا چلتی تو جتنے پتے گرجاتی، ان پر جن کے نام ہوتی وہ مرجاتی۔‘‘
’’اوہ۔۔۔!‘‘ اس نے تعریف کے انداز میں تمسخر کو اپناتے ہوئے کہا، ’’یہ بات تم کو ضرور تمہارے باپا نے بتائی ہو گی؟‘‘
’’چھ۔۔۔‘‘ اس نے انکار میں گردن ہلائی، ’’یہ باتادھر۔۔۔ ہمارے ملک میں مسجد کے مولانا نے بتائی تھی۔‘‘ پھراس نے اسے ٹٹولتی نظروں سے دیکھا، ’’تم کبھی مسجد کو بھی جاتی؟‘‘
اس نے سراٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا، اور پھراس کی آواز جیسے بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، ’’فاطمہ۔۔۔ اب تم کو کیسے بتاؤں؟ ہمارے ادھر مسلمان ۷۳ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہر فرقے کی اپنی ایک الگ مسجد ہے۔ سب نے اسلام کو اپنے اپنے طور پر بانٹ لیا ہے۔ کوئی صرف قرآن میں ہر چیز کو ڈھونڈتا ہے، کوئی حدیثوں پر بحث کرتا ہے۔ کوئی اہل بیت رسول اللہ کے سوا کسی کو نہیں مانتا۔ کوئی درگاہوں پر جھکا ہوا ہے۔ کوئی رمضان میں مہینہ بھرتراویح پڑتا ہے اور کوئیاس میں بھی اختلاف کرتا ہے۔ کوئی نمازوں میں صرف فرض رکاتوں ہی کو پڑتا ہے، کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ اور کہتا ہے۔ میں باری باری سب میں شامل ہوا، سب میں مجھے کہیں نہ کہیں کچھ چھوٹتا ہوا سا محسوس ہوا، میں نے تمہارے باپا کا بھی لباس پہن کر دیکھا لیکن مجھے تشفی نہیں ہوئی۔ میں تم کو کیسے سمجھاؤں؟ اب تم ہی بتاومیں کس مسجد میں جاؤں؟‘‘
یہ باتیں سن کر کنجو پائتما کے دل کو بھی ٹھیس پہنچی، اس نے کچھ اور کہنا اور پوچھنا چاہا لیکن اس کے حلق سے آواز ہی نہیں نکلی اور وہاسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’تم بہت معصوم ہو فاطمہ اور تمہاری مسلمانی میں بھی بڑی معصو میت ہے۔ ‘ ‘اس نے موٹر سائیکل کے ہینڈل پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور کِک مارنے والا تھا کہ کنجو پائتما نے اس سے سوال کیا، ’’یہ تو بتاو اتنے دن تم کدھر غائب تھی؟‘‘
اس نے پلٹ کراس کی طرف دیکھا، ’’تم نہیں جانتی نا فاطمہ انسان ہر طرح کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔۔۔ نوکری بھی ایک شکنجہ ہے، بدترین غلامی ہے۔ یہ ماں کو اپنے بیٹے سے، بیوی کو اپنے شوہر سے، بہن کو اپنے بھائی سے، بھائی کو اپنے بھائی کے خلاف بھی ہتھیاراٹھانے پر مجبور کرتی ہے، اس کے پاس کسی کے وعدے کی، کسی کے دل کی تڑپ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ تنخواہ دیتی ہے، حکم چلاتی ہے۔ اپنا بندہ بنا لیتی ہے، مجھے حکم تھا کہ میں اپنے دل کے سارے دروازے بند کرکے دورے پر چلا جاؤں، فاطمہ میں دورے پر گیا ہوا تھا۔ دوسری تاریخی عمارتوں کی خستہ حالی کی رپورٹ تیار کرنے۔‘‘ اس نے موٹر سائیکل کو کک لگائی اور پھر آگے بڑھ گیا۔
کنجو پائتمااسے دور تک جاتا ہوا دیکھتی رہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ احمد علی کیسی دنیا میں پھنس گیا ہے۔ اس نے بہت غور کیا لیکن اس کے معصوم دماغ نے کوئی رہ نمائی نہیں کی تو دل نے آہستہ سے کہا، کنجو پائتما یہ سب ابلیس کے کھیل ہیں، وہی مسلمانوں کو دین سے بھٹکا کرانھیں دوزخ کا ایندھن بنا رہا ہے۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی اوراس کی آنکھوں میں پھر ایک باراس کا گاؤں اندلورابھرآیا، وہاں بھی ایک بار ابلیس ایک خطیب کے بھیس میں آیا تھا اوراس نے واقعہ معراج پر کچھ تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ تب میرے باپا مسجد کی جماعت کے صدر تھے۔ انھوں نے لوگوں کو سمجھایا تھا، رسول پاک کی کسی بات پر، کسی عمل پرانگلیاٹھائے گی تو دین سے خارج ہو جائیں گی، اللہ قسم جب تک میں زندہ رہی ابلیس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی، باپا نے اس خطیب کو گاؤں بدر کر دیا تھا۔ تو کیا یہاں کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جو ۷۳ فرقوں کو ایک ہی ڈوری میں باندھ سکے؟ وہ سوچتی رہی اور بس سوچتی رہی۔
احمد علی اپنے دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک دوست نے اس کے سر کی طرف دیکھا اور بولا، ’’بالاگ آئے ہیں۔‘‘
احمد علی نے بھی اپنے سر پر ہاتھ پھیرا، ’’ہاں۔۔۔ لیکن ہم اپنے سر کے بالوں سے بھی اتفاق اور اتحاد کا سبق نہیں لیتے۔‘‘ پھر وہ اپنے آپ میں بڑبڑایا، ’’جب بال سر سے ناطہ توڑتا ہے تو کہیں کا نہیں رہتا۔ ہم سب بھی انہی ٹوٹے بالوں کی طرح بے وقعت ہو گئے ہیں۔‘‘
لیکن اس کی اس بات کو کسی نے سنا ہی نہیں اور چائے کی چسکیوں میں کھو گئے۔
باپا شام کو گھرآئے توان کے ساتھ بڑے ماما بھی تھے۔ انھوں نے جی بھر کر پائتما کو گلے سے لگایا اور بولے، ’’اب ہم سمجھ گئی، ہم سب بھٹک گئی تھی، ہم نے تم پر اور تمہارے باپا پر بہت ظلم کری، اس کا سب کچھ چھین لی تھی، تم کو در در بھٹکنے پر ہم نے ہی مجبور کری، تم اور تمہارا اللہ ہی جانتی تم کیسی کیسی مصیبت اٹھائی، تمہارا باپا۔۔۔ وہ اصلی مسلمان ٹھہری، اس نے ہم کو معاف کردی، بیٹی تم بھی ہم کو معا ف کریں گی؟ ہم تمہارے آگے ہا تھ جوڑتی، ابھی ادھر سے ہمارے ساتھ چلو، تمہارا کھیت اور بغیچہ تمہارا انتظار کرتی ہے۔‘‘
کنجو پائتما کا روم روم خوشی سے جھومنے لگا، اس کے ذہن میں اس کا وہی بڑا سا گھرابھر آیا صحن میں ناریل کے درخت، ایک بڑا سا املی کا پیڑ، اس پر کوکتی کوئل، ایک کونے میں کُوئی کا پوکھر، پوکھر سفید اور لال پھولوں سے لدا ہوا، وہ پوری شدت کے ساتھ ماموں سے لپٹ گئی، اور ماموں اس کی پیٹھ پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے تھے۔
دوسرے دن اندلورواپس ہونے کی تیاریاں ہو رہی تھیں، سامان باندھا جارہا تھا۔ باپا بیماریوں کے علاج کی کتاب کو اپنے بیگ میں رکھ ہی رہے تھے کہ موٹر سائیکل کی آواز سنائی دی، باپا نے دیکھا احمد علی گاڑی سے نیچے اترا لیکن اس سے پہلے کہ وہ دروازے کی طرف قدم بڑھاتا، پائتمااس کے پاس پہنچ چکی تھی۔ باپا اور ماما دونوں اس کو دیکھ رہے تھے اور وہ احمد علی سے کچھ کہہ رہی تھی لیکن اس کی آواز دونوں تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی، ’’احمد علی میں تمہاری اس دنیا سے جا رہی، میں تم کو کبھی نہیں بھولیں نگی، تم ہی پہلا آدمی جو میرے دل کو دھڑکنا سکھائی،، میں اصلی مسلمان، جو بھی بولیں گی سچ ہی بولیں گی، بنا ڈر کے بولیں نگی، میں تم سے بہت پیار کری، لیکن تم کو اپنا نہیں بنا سکتی، ادھر ۷۳ فرقے بن گئی، تم ہم کو بتائی تھی سب مسلمان ان میں بٹ گئی، احمدعلی تم اگروعدہ کری تو میں ساری زندگی انتظار کریں گی، بولو کیا تم ۷۳ فرقوں کو ایک کرسکتی؟
احمد علیاسے مایوس نظروں سے دیکھنے لگا تھا اور وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی اپنے باپا اور ماما کے پاس پہنچ گئی تھی۔