بیچ بھنور ندیا گہری
اقبا ل صا حب نے اخبار کی سرخی پڑھنے کے بعد پوری خبر کوپڑھنا بھی ضروری نہیں سمجھا اوراسے غصے سے کتابوں کے ریکٹ کی طرفاچھال دیا، اور سوچنے لگے، حد ہو گئی اب تو ایسا لگتا ہے مسلمانوں سے ان کا اللہ بالکل ہی روٹھ گیا ہے اورانھیں آر ایس ایس کے حوالے کرکے بے فکر ہو گیا ہے۔ ٹھیک اسی وقت ان کا بیٹا کرکٹ کا کِٹ بیگ پیٹھ پر لادے صورت لٹکائے داخل ہوا، اورانھوں نے بے تابی سے پو چھا، ’’کیا ہوا فرحان؟‘‘
بیٹے نے پیٹھ پر سے کٹ بیگ کواتارتے ہوئے جواب دیا، ’’کالج کی کرکٹ ٹیم فائینل ہو گئی اوراس کا سلیکشن نہیں ہوا۔‘‘
انھوں نے بیٹے کے مایوس چہرے کی طرف دیکھا۔
’’بابا مجھے سے کمزور کھلاڑی ونود پانڈے کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا لیکن مجھے۔۔۔‘‘
وہ کیا کچھ کہتا رہا، اس کی آوازان کے کانوں تک نہیں پہنچی البتہ ان کا ذہن سوچ رہا تھا کہ اس ملک میں اب مسلمانوں کے مستقبل کاکیا ہوگا؟ ہر جگہ تعصب، ہر جگہ ایک ہی ذہنیت۔۔۔ کالج کی ٹیم میں اگراس کاسلیکشن ہوجاتا توکیا وہ نیشنل کھلاڑی بن جاتاتھا؟ تعصب کرنا ہی ہے تو وہاں۔۔۔ اس سطح پر کرتے۔ لیکن نہیں وہ تو آغاز ہی سے مسلمانوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اسکول کی جانب روانہ ہو گئے۔
وہ ایک سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹرتھے اور ریاضی کے نہایت قابلاستاد مانے جاتے تھے۔ دیگر اساتذہ کی طرح اگر وہ چاہتے تو ٹیوشن کلاس شروع کرکے ہزاروں روپیہ کما سکتے تھے لیکن انھوں نے کبھی یہ کام نہیں کیا، بلکہ اگر کسی طالب علم نے یہ خو اہش بھی کی توان کا جواب تھا، Your teacher is not for sale وہ چوبیس گھنٹوں کے استاد تھے۔ ان کے پاس ذات جماعت کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ جن بچوں کو کلاس میں ریاضی کا کوئی مسلہ سمجھ میں نہیں آتا وہ بے دھڑکان کے گھر چلے آتے اور وہانھیں اس قدر اپنائیت اور خلوص سے گھنٹوں پڑھاتے کہ کبھی کبھی توان کی بیوی بھی ناراض ہوجاتی کہ یہ گھر ہے یا اسکول؟ لیکن ان کے روئیے میں کبھی تبدیلی نہیں آئی، یہی وجہ تھی کہان کی بڑی عزت تھی اوران کے شاگردان پر جان چھڑکتے تھے۔
جناب اقبال صاحب۔۔۔!‘‘
انھوں نے پلٹ کر دیکھا، موذن صاحب کے ہاتھوں میں اخبار تھا، ’’اب تو گوشت کھانے پر بھی پابندی عائد ہو گئی ہے۔ عدالت کا فیصلہ بھی آگیا ہے؟‘‘
اقبال صاحب کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، ’’تو چھوڑ دیجیے اسے کھانا۔۔۔‘‘ اور پھر وہ بنا رُکے تیز تیز قدموں سے اسکول کے بڑے دروازے میں داخل ہو گئے اور موذن صاحبانھیں دیکھتے رہ گئے۔
آفیس کی دیوار سے لگ کر کچھ اساتذہ مصر وفِ گفتگو تھے۔ انھیں دیکھتے ہی وہ سب ایک لمحے کے لیے چپ ہو گئے لیکن سب کے ہاتھ سلام کے لیے بلند ہوئے اورانھوں نے سرکے اشارے سے جواب دیا اور آفیس میں داخل ہو گئے۔
’’لگتا ہے صاحب نے آج کا اخبار نہیں دیکھا۔‘‘ رحمت صاحب نے سب کی جانب دیکھا۔
’’آپ لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اسکول میں، اسکول سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کرتے۔‘‘ پرشانت صاحب نے آہستہ سے کہا۔
’’ارے سر۔۔۔ یہ سب دکھاوا ہے، حکام کی چاہلوسی ہے۔‘‘ فیروزصاحب نے بُرا سا منہ بنایا، ’’ورنہ ہیڈ ماسٹری پر میرا حق تھا۔‘‘
آوازیں اقبال صاحب کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھیں۔
’’بھئی ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ عرفان صاحب نے اپنے ٹیچنگ ایڈس کو سنبھالتے ہوئے کہا، ’’ہیڈ ماسٹر خواہ کوئی رہے ہمیں تو بچوں کو پڑھانا ہے۔ اب رہاآ پ کی اصل گفتگوکا مدعا کہ گوشت بند ہوگیا تو کیا کھائیں گے؟ توصاحب بندہ سبزی ترکاری سے بھی اپنا کام چلا سکتا ہے۔‘‘
رحمت صاحب نے عرفان صاحب کی جانب گھور کر دیکھا، ’’یہاں بات کھانے کی نہیں ہو رہی ہے، بلکہ ذہنیت کی ہو رہی ہے کہ اب تو عقیدت بھی قانون سے بالا تر ہو گئی ہے۔‘‘
سب کی نظریں پرشانت صاحب پر جم گئیں، اور پر شانت صاحب نے اویناش صاحب کی جانب دیکھا، ابھی نظریں کچھ کہہ بھی نہیں پائی تھیں کہ ٹھیک اسی وقت چپراسی نے گھنٹی بجانا شروع کی اور ڈریل ماسٹر کی سیٹیاں شروع ہو گئیں اور اسکول کے تمام بچے نظم خوانی کے لیے اپنی اپنی قطاروں میں کھڑے ہو گئے۔
ریاست کا یہ ایک ایسا ضلع تھا جس میں تعلیمی سرگرمیاں سب سے زیادہ تھیں۔ جگہ جگہ خانگی اسکول بھی تھے لیکن یہ شہر کا واحد اسکول تھا جہاں بیک وقت اردو اور مرہٹی میڈیم کے طلباء ایک ہی عمارت میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہاں پانچویں جماعت سے میٹرک تک کی تعلیم کا انتظام تھا، اور سرکاری اسکول ہونے کے باجود اپنی عمدہ تعلیم کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ جس کا سارا کریڈیٹ اقبال صاحب کے سربندھتاتھا۔ مرہٹی زبان پر بھیانھیں پوری طرح عبور حاصل تھا۔
ریاضی کا پریڈ لینے جونہی وہ کلاس میں پہنچے تو معمول کے مطابق سارے لڑکے ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے تھے لیکن انھوں نے دیکھا مقامی وِدھائک کا لڑکا سبھاش کھڑا نہیں ہوا تھا بلکہ وہ نیچے جھکا ہوا تھا گویاان کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اقبال سر کا ما تھا ٹھنکا۔۔۔ اخبار کی سرخی، فرحان کا ٹیم میں منتخب نہ ہونا، فیروز صاحب کا طنز، اور سبھاش کی حرکت۔۔۔ واقعی ملک میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور یہ لیڈر۔۔۔ اپنے بچوں کو بھی زہریلا بنا رہے ہیں۔ غصے کی گرمی ان کے دماغ میں چڑھنے لگی تھی اور اسی عالم میں انھوں نے بچوں کے ہوم ورک کی کاپیاں چیک کرنا شروع کیا، جماعت میں سناٹا چھایا ہوا تھا کیونکہ آج اقبال صاحب کے چہرے پر شگفتگی نام کو نہیں تھی۔ باری جب سبھاش کی آئی تو وہ اسی طرح اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔ انھوں نے اس کی جانب غصے سے دیکھا لیکن وہان کے ٹیبل تک نہیں پہنچا۔ وہ زور سے گرجے، ’’کیا تمہارا ہوم ورک چیک کرنے مجھے تمہارے پاس آنا پڑے گا؟‘‘
سبھاش نے گھبرائی ہوئی نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔
’’کیا سمجھتے ہو تم؟‘‘ وہ غصے میں کہے جا رہے تھے، ’’تم ہو ں گے کسی ایم ایل اے کے بیٹے، لیکن میں کوئی چاپلوس نہیں ہوں، یہاں تک اپنی صلاحیتوں پر پہونچا ہوں۔ کہاں ہے تمہاری ہوم ورک کی نوٹ بک۔۔۔؟‘‘
’’سر۔۔۔ سبھاش نے ہوم ورک نہیں لایا ہے؟‘‘ بازوں بیٹھے ہوئے لڑکے نے ادب سے کہا۔
’’اوہ۔۔۔ تو بنا ہوم ورک کیے بھی یہ ٹھاٹھ ہیں تمہارے۔۔۔‘‘ اقبال صاحب کا پارہ اور بھی چڑھ گیا، اور وہ دانت پیستے ہوئے دہاڑ ے، ’’بینچ پر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
سبھاش بینچ پر کھڑا ہوگیا۔ وہ کلاس کا ایک ہونہار طالب علم تھا۔ یہ بے عزتیاس سے برداشت نہیں ہوئی اوراس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اقبال صاحب نے ایک بار پھراس کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا اور پھر بلیک بورڈ پر سوال لکھنا شروع کیا ہی تھا کہ چپراسی کلاس کے دروازے کے قریب پہنچا اور آہستہ سے کچھ کہا، اوروہ فوراً کلاس سے باہر نکلے، جونہی آفیس کے دروازے کے قریب پہنچے توان کے سامنے اودھائک جی موجود تھے۔ انھوں نے سلام کے لیے جونہی اپنا ہاتھاٹھایا، اودھائک جی نے آگے بڑھ کران کے ہاتھ کواپنے ہاتھوں میں تھام لیا، ’’یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ آپ گروجی ہیں۔ آپ کا آدر کرنا ہمارا کرتویہ ہے۔‘‘
انھوں نے بڑی محبت کے ساتھانھیں ان کی کرسی پر بٹھایااور اس سے پہلے کے اقبال صاحب کوئی سوال کرتے انھوں نے کہنا شروع کیا، ’’بات یہ ہے گروجی کہ کل سے سبھاش کی طبعیت بہت خراب ہے، اب بھیاسے بخار ہے۔ اس کی ممی نے اسے روکنا چاہا تھا کنتو وہ رُکا نہیں، آپ کے ودیارتھی آپ کے دیوانے ہیں، آپ کے بنا ایک دن بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
اقبال صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن وہ اپنے آپ میں ایک عجیب سی پشیمانی محسوس کر رہے تھے۔ انھیں رہ رہ کر اپنے آج کے روئیے پر ندامت سی ہو رہی تھی، سبھاش کاآنسو بھرا چہرہ بار باران کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا۔، ’’سر اگر آپاسے اپنے ساتھ لے جانا چاہیں تو میں اسے۔۔۔‘‘
’’نہیں نہیں۔۔۔‘‘ اودھائک جی نے اقبال سر کو جملہ بھی پورا کرنے نہیں دیا، ’’مجھے تو پارٹی کی میٹنگ میں جانا تھا کنتواس کی ممی نے مجھے یہاں بھیجاہے، یہ کہنے کے لیے کہ بخارکے کارن، وہ اپنا ہوم ورک بھی نہیں کر سکا، کہیں ایسا نہ ہو کہاسے لاپرواہ جان کراس کے انٹرنل مارکس کٹ جائیں۔‘‘
’’سر اپنے بیٹے کے تعلیمی کرئیر میں آپ کی بیداری قابل تعریف ہے۔‘‘ بے ساختہ اقبال سر کی زبان سے نکلا، ’’کاش یہ بیداری ہر ماں باپ میں پیدا ہوجائے تو ہمارے ملک میں ایک انقلاب آجائے گا۔‘‘
’’ہم کیا انقلاب لائیں گے گروجی؟وہ تو آپ جیسے نشٹھا وان گرو ہی لاسکتے ہیں، اس دیش کی راج نیتی دیش کو کہاں لے جارہی ہے؟ اس پر کسی کا دھیان ہی نہیں ہے۔ جاتی واد، جھوٹ، بھرشٹاچار، آستھا کے نام پر نیا لائے منہ چڑھا رہے ہیں، شکشا کے نام پر کمائی کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں، دنگے، پکش پات، اس دیش کی سبھیتا اور سنسکرتی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔‘‘ ودھائک جی کی گردن جھک گئی، ’’مجھے شرم آتی ہے، کنتو کیا کہوں۔۔۔ گروجی میں بھی اسی راج نیتی کا ایک مہرہ ہوں، کبھی سیدھی راہ پر چلنے کا دھیان بھی آیا تو پارٹی کا ایجنڈا زبان بند کر دیتا ہے۔‘‘ انھوں نے اقبال صاحب کی جانب دیکھا، ’’آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں آج یہ کیسی باتیں کر رہا ہوں، تو گروجی اس ودیامندر کا پوتر واتاورن برے سے برے انسان کو بھی سچ بولنے پر مجبور کرتا ہے۔ آپ اور آپ کا یہ اسکول دونوں جاتی میں انسان پیدا کرنے کا کرتویہ نبھا رہے ہیں، میں پھر کہتا ہوں، دیش میں یہ پریورتن لانے کی اچھااور ساہس اب کسی لیڈر میں نہیں ہے، کوئی لا سکتا ہے تو کیول وہ آپ جیسے گرو ہی لا سکتے ہیں۔‘‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھے، ’’ہم لوگ تو مایا موہ اور ستہّ کے بھکاری بن گئے ہیں۔‘‘ ایک نظرانھوں نے دیواروں پر آویزاں پیش رو لیڈروں کی تصویروں کی جانب دیکھا، ان کی عجیب کیفیت تھی، اور پھروہ تیزی سے باہر نکل گئے۔
اس دن کے بعد سے اقبال صاحب ایک عجیب سے تذبذب میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اپنے اسکول کو وہ جب بھی دیکھتے ان کے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ یہ صرف نصابی علوم کے تکمیل کی جگہ نہیں ہے یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سے صرف کلرکوں، اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے ورکر وں کو پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ انسانوں کو پیدا کرنا ہے۔ جن میں احساس زمہ داری، ایمانداری، رواداری، فراخدلی کے ساتھ ہی ساتھ ہر قسم کے ذہنی تعصب سے پاک و صاف محبِ وطن پیدا کرنا ہے، لیکن اخبار اور ٹیلی وژن کی خبریں دیکھ کر وہاداس بھی ہوجاتے، اوران کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں کی زبوں حالی کی تصویریں گردش کرنے لگتی، دن بدن زوال کی جانب جھکتی ہوئی قوم، اجاڑ ہوتی ہوئی دیوڑیاں، اور جھونپڑ پٹیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، بے روزگار نوجوان، معاشی بدحالیاں اور غلط راستوں کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان۔۔۔ اور پھر وہی ایک سوالان کے ذہن پر کچوکے لگاتا، اس ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا اقبال صاحب بہت زیادہ مذہبی انسان نہیں تھے لیکن پھر بھیان کی صبح کا آغاز فجر کی نماز سے ہوتا اور وہ گھر سے اس وقت تک باہر نہیں نکلتے تھے جب تک کلام پاک کی تلاوت نہیں کرلیتے۔ داڑھیانھوں نے کبھی نہیں رکھی، مزاج میں بڑی نفاست تھی، سوٹان کا پسندیدہ لباس تھا لیکن ٹائی کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ مغرب اور عشاء کی نماز باقاعدگی سے اپنے محلے کی مسجد میں ادا کرتے تھے۔
ایسے ہی ایک رات وہ نماز عشاء کی ادا ئیگی کے بعد مسجد سے باہر نکلنا ہی چاہتے تھے کہ کچھ لوگوں نے انھیں گھیر لیا، ’’صاحب دیوان دیوڑھی کے اپنے اسکول، ملت اسلامیہ ہائی اسکول میں انگریزی کے ایکاستاد کی جائداد نکلی ہے۔‘‘ خادم الدین نے امید بھری نظروں سے اقبال صاحب کی جانب دیکھا، ’’سب کا کہنا ہے کہ سوسائٹی کے صدر مولانا عمر فاروقی سے آپ کا بڑا یارانہ ہے۔ آپ اگراس کی سفارش کر دیں تو۔۔۔‘‘
’’بھائی صاحب۔۔۔!‘‘
’’دیکھیے جناب انکار نہ کیجیے۔‘‘ خادم الدین گڑگڑانے لگے، ’’وہ آپ کا ہی شاگرد ہے۔ ہر امتحاناس نے اچھے نمبروں سے کامیاب کیا ہے۔‘‘
’’لیکن اس سے پہلے کہیں۔۔۔‘‘
’’ارے صاحب کہاں نہیں اس نے درخواست دی ہے۔ وہ انٹرویو بھی کامیاب کرلیتا لیکن نوکری کو خریدنے کی رقم ہمارے پاس نہیں ہے۔‘‘ خادم الدین کی صورت پر مسکینی ٹپک رہی تھی، ’’بس آپ زرا۔۔۔‘‘
اقبال صاحب نے نہایت محبت سے اپنے دونوں ہاتھان کے کندھوں پر رکھا، ’’بھائی عمر فاروقی کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ ہے، دولتان کی کمزوری ہے، آپ کو کیسے سمجھاؤں، روپیے نے سب رشتے بھلا دئیے ہیں، اور میں ٹھہرا دوست، دولت کے مقابل ایک دوست کی سفارش کیا اثر دکھائے گی؟‘‘ انھوں نے ان سے آنکھیں چرائیں اور خاموشی سے آگے بڑھ گئے۔ وہاں موجود سارے لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اور خادم الدین نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا، ’’ہیڈ ماسٹر صاحب۔۔۔ آپ تو سرکار کے آدمی ہیں، اس بھرشٹا چار کے بارے میں حکومت کو کیوں نہیں لکھتے کہ وہ سارے خانگی اسکولوں کو اپنی تحویل میں لے لے، غریبوں کو کم از کم نوکری تو ملے گی؟‘‘
لیکن اقبال صاحب نے ایک بار بھی پلٹ کران کی طرف نہیں دیکھا، وہ کیسے حکومت کو یہ بات لکھ پاتے؟ اور کس حیثیت سے لکھتے؟ جبکہ سارے خانگی اسکول اور کالجس یا تو منتریوں کے ہیں، یا پھر منتریوں کے قریب کے لوگوں کے ہیں۔
ان کے پیچھے اب بھی ایک شور تھا،
سرکاری ملازمتیں تو نکلتی نہیں۔
اور جو نکلتی ہیں ان پررشتہ داروں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے سرکار کیا کر رہی ہے؟
ارے سرکار کی بات چھوڑو، خود اپنے لوگ بھی لالچی ہوگئے ہیں۔
بنا پانچ دس لاکھ لیے تقرر ہی نہیں کرتے۔
تو آخر ہم غریب مسلمان کہاں جائیں؟
ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
گھر پہنچنے کے بعد بھی اقبال سر کے کانوں میں وہی آوازیں گونج رہی تھیں۔ ایک عجیب طرح کا بوجھان کے دل و دماغ پر سوار تھا، صدیوں سے اس ملک کی خدمت کرتے آئے ہیں ہم لوگ، اس کی آزادی اور حفاظت کے لیے ہم نے خون بہایا ہے، اور آج۔۔۔ آج ہمارا کوئی پُرسانِ حال نہیں؟ رات تمام وہ بے چین رہے۔ جوں توں رات کٹی اور وہ فجر کی نماز کے لیے اٹھے تو تب بھیان کے کانوں میں وہی آوازیں تھیں، اس ملک میں غیر تو غیراپنوں نے بھی روزی کے سارے ہی راستے مسدود کردئیے ہیں؟ مسلمانوں کی بے بسی اوران کی مجبور زندگیاں ان کی آنکھوں میں گردش کر رہی تھی۔ ان پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ اس ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ بار بار یہی ایک سوالان کے دماغ پر ہتھوڑے بر سا رہا تھا۔ فجر کی نماز کا وقت ہو رہا تھاانھوں نے وضوکیا، نماز پڑھی اور تلاوت شروع کی کچھ ہی دیر میں ان کے بدن میں کپکپی سی ہونے لگی اور کاعذ پر پھیلی ہوئی سورۃ رعد کی آئتیں ان کے کانوں میں گونجنے لگیں،
’’جو لوگ اللہ سے پختہ عہد کرکے اسے توڑ ڈالتے ہیں اور جن رشتوں کو جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے قطع کردیتے ہیں اور ملک میں فساد کرتے ہیں ایسوں پر لعنت ہے اور ان کے لیے برا انجام ہے۔‘‘
اقبال صاحب کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ خوف سے ان کی آنکھیں بند ہو گئیں تو سارا عالم اسلامان کی آنکھوں میں تھا۔ وہ سجدے میں گر گئے۔ بے شک معبود ہم ہی خطا کار ہیں، ہم ہی نے اپنے وعدوں سے مکر کر اس عذاب کو اپنے آپ پر مسلط کر لیاہے۔ ائے خطاؤں کو معاف کرنے والے، ائے مہربان رب تو ہی ہم کو بچا سکتا ہے تو ہی ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ اس عذاب سے نکلنے کا راستہ دکھا دے، ائے راستہ دکھانے والے۔
وہ ابھی سجدے میں گڑگڑا ہی رہے تھے کہ فرحان نے انھیں اطلاع دی کہ پنڈت ہری پرشاد جی دیوان خانے میں بیٹھے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
اقبال صاحب نے سجدے سے سراٹھایا اور بنا بیٹے کی طرف دیکھاآہستہ سے کہا، ’’ان سے کہیے ابھی حاضر ہوتا ہوں۔‘‘
پنڈت جی بے چینی کے عالم میں کمرے میں ٹہل رہے تھے۔
’’نمستے پنڈت جی۔‘‘
پنڈت جی نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا،
’’تشریف رکھیے۔۔۔ آج کیسے راستہ بھٹک گئے آپ؟‘‘ اقبال صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’بات یہ ہے ماسٹرجی، اس شیتر میں گنیت میں آپ سے بڑا دوسرا کوئی مہا رتھی نہیں ہے۔‘‘
’’یہ آپ کی محبت ہے جو ایسا سمجھتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ماسٹر جی یہ محبت نہیں سب کا وشواس ہے۔‘‘ پنڈت جی نے فخریہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا، ’’ہمارے اسکول میں اسی گنیت، آپ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔ ہاں ریاضی۔۔۔ ریاضی کے ٹیچر کے لیے انٹرویو ہے۔ میری آپ سے بنتی ہے کہ آپ ہمارے لیے کسی اچھے ریاضی کے استاد کا چئین کردیں۔‘’
’’کب ہے یہ انٹرویو۔۔۔؟‘’
’’آتے سوموار کو۔‘‘
’’جی حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘
’’دھنیاواد۔۔۔ چلتا ہوں۔ نمستے۔۔۔‘’
’’پنڈت جی چائے تو پیتے جائیے؟‘’
پنڈت جی نے ہاتھ جوڑے، ’’ماسٹر جی چھما چاہتا ہوں۔ برہمن ہوں۔ میرا دھرم اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘’
اور پھر وہ تیزی کے ساتھ دروازے سے باہر نکل گئے اور اقبال صاحبانھیں دیکھتے رہ گئے۔ ان کے ذہن میں ان کا بچپن گردش کرنے لگا، وہ اور کرشنا سوامی ساتھ ساتھ کھیلتے تھے، ساتھ ساتھ اسکول جاتے تھے کرشنا کی ماتا جی پوجا کے لیے ہمارے گھر سے پھول لے جاتی تھیں، انھوں نے جانے کتنی بار ہم دونوں کو ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھلایا تھا۔ دونوں کس آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے آج بھی جب وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ یہاں آتا ہے تو ایک دن ضرور میرے گھر میں گزارتا ہے، لیکن۔۔۔ انھوں نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔۔ اب تو یہ ساری باتیں گویا خواب ہو گئیں ہیں۔
اقبال صاحب عجب تناؤ بھری زندگی جی رہے تھے لیکن پوری کوشش کرتے کہان کے مزاج میں تنگ نظری پیدا نہ ہو وہ ایک استاد تھے اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہاستاد کو فراخ دل ہونا چاہیے۔ یہاسی کا منصب ہے کہ وہ نصابی علوم کے ساتھ ہی ساتھ اپنے شاگردوں میں اعلیٰ صفات بھی پیدا کرتا ہے۔ لیکن آئے دن کی خبریں ان کے سامنے کئی سوالات بھی کھڑا کر دیتیں، کبھی سنگاپور کے مسلمانوں کی بپتا، کبھی گلف کے حالات، کبھی دادری کا سانحہ، کبھی تنگ نظر سیاست دانوں کے بیانات اور کبھیان کے اپنے بچوں کا مستقبلانھیں بے چین کر دیتا۔
وہ وعدے کے مطابق ریاضی کے ایکسپرٹ کی حیثیت سے سواستک ہائی اسکول پہنچے۔ ان کے سامنے تقریباپچاسامید وار تھے۔ انٹرویو شروع ہواانھوں نے مختلف سطحوں پرامید واروں کو پر کھا، ہر راونڈمیں کچھامید وار چھٹتے چلے گئے۔ جبانھوں نے آخری راونڈ مکمل کیا توان کی لسٹ میں صرف تینامید وار تھے۔ اسکول کے سیکریٹری پنڈت ہری پرشاد جی کے ہاتھوں میں لسٹ تھماتے ہوئے انھوں نے کہا، ’’پنڈت جی ان تین ناموں میں حالانکہ سب سے عمدہامید وار شیخ حنیف ہے لیکن میں نے اس کا نام تیسرے نمبر پر لکھا ہے، سیدھی سی بات ہے آپ کے ادارے میں اسے نوکری تو ملنے والی نہیں، آپ اوپر کے دوناموں میں سے کسی کو بھی منتخب کر لیں۔‘‘
پنڈت جی نہایت غور کے ساتھان کی باتیں سن رہے تھے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی، ’’ماسٹر جی آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ ہم شیخ حنیف کو نوکری نہیں دیں گے، لیجیے میں نے اس کے نام پر دستخط کر دئیے ہیں، اب ایکسپرٹ کی حیثیت سے آپ بھی کردیں۔‘‘
اقبال صاحب حیرت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگے، ’’لیکن یہ ادارہ تو آرایس ایس تنظیم کا ہے نا؟‘‘
’’جی۔۔۔ سو فیصد درست۔‘‘
’’تو پھر۔۔۔!‘‘ اقبال صا حب اب بھی مجسم حیرت بنے ہوئے تھے۔
’’یہی انتر ہے آپ کی اور ہماری سوچ میں ماسٹرجی،‘‘ پنڈت جی نہایت ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے، ’’آپ بہت نزدیک دیکھتے ہیں اور ہم بہت دور تک دیکھتے ہیں، ہم نے بھی محسوس کیا، شیخ حنیف آپ کی طرح بہت اچھاا ستاد ثابت ہوگا، وہ کم سے کم ہمارے اسکول میں پچیس برس تک کام کرے گا، ان پچیس برسوں میں ہماری پچیس پیڑیوں کواتم گنیت سکھائے گا، اس کی وجہ سے ہمارے بچوں میں جانے کتنے انجنئیر اور ڈاکٹر بنیں گے، اس لیے ایک مسلمان کو نوکری دینا ہمارے لیے بہت چھوٹی سی بات ہوگی۔ دوسرے وہ جب تک بھی یہاں کام کرے گا، اچھا ہی کام کرے گا۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں۔‘‘
اقبال صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، جس راستے کے لیے وہ کبھی اللہ سے گرگڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ وہ راستہ انھیں اللہ نے دکھا دیا تھاانھوں نے دل ہی دل میں ااس کا شکر ادا کیا۔
عشاء کی نماز کے بعدانھوں نے سب کو ایک منٹ کے لیے روک لیا اور ممبر پر بیٹھتے ہوئے کہنا شروع کیا، ’’بھائیو میں بہت دنوں سے پریشان تھا کہ اس ملک میں ایسے تعصب بھرے ماحول میں ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ ہمارے بچوں کی روزی روٹی کا کیا بنے گا؟ آج مجھے اس کی کلید مل گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہمیں محنت مزدوری سے لے کرہنر مندی کی آخری حد تک یعنی ہر میدان میں نمبر ون بننا ہوگا، ہمان کی ضرورت بنیں، اپنی محتاجی کے اسیر نہیں، ہمیں اپنے بچوں کے تعلیمی کرئیر پر بھی پوری توجہ دینا ہوگی کہ وہ غلط راستوں سے کامیابی حاصل نہ کریں بلکہان کے نتائج میرٹ میں آئیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقین کریں ہم سے ہمارے شاندار مستقبل کو کوئی نہیں چھین سکتا۔
وہ ممبر سے اتر گئے اورانھوں نے دیکھا سب کے چہروں پر ایک عجیب طرح کا اطمینان قوس قزح کی طرح رنگ بکھیر رہا تھا۔