یہ عشق نہیں آساں
فضل محمد یہاں جب سے آیا پیدل ہی گھوم رہا تھا۔ شہر کی گلیوں میں اس کے بچپن کا ایک ایک لمحہ جیسے زندہ ہوتا جارہا تھا۔ کبھی وہ کسی نکڑ پر آنکھیں بند کرکے کھڑا ہوجاتا اور ماضی کسی دریا کے تیز دھارے کے ماننداچھلتا کودتااس کی آنکھوں سے بہہ جاتا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شناسا چہروں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا لیکن چہرے ہی بدل گئے تھے۔ شہر کچھ تھکا تھکا محسوس ہورہا تھا۔ کویلووں سے ڈھکے ہوئے گھراسی طرح سر جھکائے کھڑے تھے۔ اور سڑکوں پر مریل گھوڑے تانگے کھینچ رہے تھے۔
وہ مل کارنر سے نکلا تو سامنے ہی پولیس ہیڈ کوارٹر کی عالیشان عمارت تھی۔ آج بھیاس کے احاطے میں ایک توپاسی طرح رکھی ہوئی تھی۔ وہاں سے کچھ آگے ہی بڑھا تھا کہ شہر کا بڑا دروازہ جو بھڑکل دروازہ کہلاتا ہے اسے صاف نظر آرہا تھا۔ وہ جلدی جلدی قدماٹھانے لگا اور جیسے ہیاس کے قریب پہنچااس کے قدم ٹھٹھک گئے۔ اس نے پلٹ کر شمال مغرب کی طرف نظریں دوڑائیں، اسے عاشور خانے کی قدیم عمارت نظر آئی جس کا سبز رنگ اپنی رونق کھو چکا تھا۔ وہ ٹکٹکی باندھے ادھر دیکھے جا رہا تھا۔
’’تم آگئے فضل محمد۔‘‘ کوئیاس سے لپٹ گیا تھا۔
اس نے آواز پہچان لیا تھا، ’’ہاں میرے دوست۔‘‘ اس نے بھیاسے لپٹالیا۔
’’میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔‘‘
’’میرے دوست ہمارا معاملہ تمہاری طرح نہیں ہے۔‘‘ فضل محمد بتانے لگا، ’’جب تک حامد میاں اور روشن بی نہیں آجاتی، ہمیں دیوڑھی سے نکلنے کی اجازت نہیں ملتی، باوا ان کی نگرانی ہی میں ہمیں خرچ کے لیے آٹھ آٹھ آنے دے کر بھیجتے ہیں‘‘
’’اوہ۔۔۔!‘‘ آغا بابر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، ’’یار اس بار دس محرم کو ہم چوک کا مجمع بھی دیکھیں گے اور عاشور خانہ سالار جنگ تک بھی جائیں گے ماتمی جلوس دیکھنے۔‘‘
’’ماتمی جلوس۔۔۔؟‘‘ فضل محمد کے چہرے کا رنگاڑ گیا، ’’نہیں یار وہ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔‘‘
’’بزدل۔۔۔!‘‘ آغا مسکرانے لگا تھا، فضل محمد نے اپنے دوست کا ہاتھ پکڑ لیا اور دونوں قدماٹھانے لگے، ’’ہم دونوں ہر سال سات محرم سے دس محرّم تک کی راتیں اسی عاشور خانے کے آس پاس ہی توگزارتے ہیں، تو اس بار بھی یہیں گزارلیں گے۔‘‘
’’ہاں بڑے چاند صاحب کی سواری جواسی عاشور خانے میں بٹھائی جاتی ہے‘‘ ان کے کانوں میں نوبت نقاروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ فضل محمد نے دیکھا، چاند صاحب کے بالکل مقابل ایک اونچی سی مچان سے نوبت جھڑرہی تھی۔ سواری کے سامنے لوگوں کا ایک اژدھام تھا۔
’’چلواس طرف۔۔۔ چاند صا حب کے پاس چلتے ہیں۔‘‘
اور وہ دونوں میدان میں لگے میلے کی بھیڑ میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ رہے تھے۔ میلے میں مختلف قسم کی دکانیں لگی ہوئی تھیں۔ ہمہ اقسام کے جھولے تھے، لڑکے اور لڑکیاں بنگوائی جھولوں میں سوار ہورہی تھیں، کچھ آسمانی جھولوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک تنبو نما ڈیرے میں رسیوں سے بندھے، لکڑی کے ہاتھی، گھوڑے، اونٹ، اور شیروں پرکم سن بچے سوارتھے اور وہ کسی پِھرکی کے مانند گردش کررہا تھا۔ خوانچوں والے جلیبی اور دیگر مٹھائیوں کو سجائے گاہکوں کو راغب کرنے کے لیے آوازیں دے رہے تھے تو دوسری طرف سفید پنّیاں مڑی ہوئی لکڑی کی تلواریں خریدنے والوں کا ایک ہجوم تھا تو کہیں کاغذی چشموں کو حاصل کرنے والوں کا شور سنالی دے رہا تھا۔ سستے زیورات کی دکانوں پربرقعہ پوش خواتین اور کم سِن لڑکیاں تھیں۔ ان ہی میں اسے رُخسانہ بھی نظر آئی وہ اپنے دوست کا ہاتھ چھوڑ کر تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ وہ چاندی کی ایک انگوٹھی کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’اس انگوٹھی کی قیمت کیا ہے؟‘‘
دکان دار نے بنااس کی طرف دیکھے جواب دیا، ’’ایک آنہ۔‘‘
فضل محمد نے رُخسانہ کی طرف دیکھااور رُخسانہ کی زبان سے نکلا، ’’لیکن میرے پاس تو صرف آدھا آنہ ہی بچا ہے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ فضل محمد نے اپنی جیب سے ایک آنہ نکال کر دکاندار کے سامنے کردیا اور انگوٹھی لے کراس کیانگلی میں پہنانے لگا۔ دکان میں کھڑی ایک عورت نے دونوں کی طرف دیکھا اور پھر اپنے قریب کھڑی ہوئی عورت کو اشارہ کرتے ہوئے بولی، ’’زبیدہ یہ دیکھ تماشہ۔ یہ بچے کیا کر رہے ہیں۔‘‘
لیکن فضل محمد تب تک اپنے دوست کے پاس پہنچ چکا تھا اور دس برس کی خوبصورت رخسانہاسے احسان مند نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں دوست چاند صاحب کی سواری کے قریب پہنچ چکے تھے، نوجوانوں کا حلقہ ہاتھوں میں تلواریں لیے نہایت جذباتی انداز میں، ہائے دوست دولہا کہتے ہوئے مخصوص رقص کر رہا تھا۔ ان کے بالکل ہی قریب الاو روشن تھا۔ آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔
’’ر خسانہ۔۔۔!‘‘ اس نے آہستہ سے اپنے آپ سے کہا اور بھڑکل دروازے کے باہر نکل گیا۔ اسے اپنے شہر میں آئے ہوئے چار دن ہو چکے تھے۔ ان چار دنوں میں وہ شہر کے مختلف مقامات سے اپنی یادیں سمیٹ رہا تھا۔ لیکن اب تک وہ نہ تو نواب رحیم یار خان سے ملا تھا اور نا ہیان کی دیوڑھی کی طرف جانے کیاس میں ہمت پیدا ہوئی تھی۔
نواب صاحب کا شمار شہر کے معزیزین میں ہوتا تھا۔ ماہِ رمضان کیا آتاگھر گھران کی دیوڑھی سے افطار کے خوان پہنچتے، دیوڑھی کے میدان میں بڑا سا شامیانہ تان دیا جاتا، اور مسافروں کی سحر کا انتظام شروع ہوجاتا، شہر کے غریب غرباء میں کپڑے تقسیم ہونا شروع ہوجاتے، عید کے بعد کبھی نہ ختم ہونے والا دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا، رجب کے کونڈوں کا وہ اہتمام ہوتا کہ شہر کا شہر ششدر رہ جاتا، ماہِ محرم میں دیوڑھی کے بالائی خانے میں شہادتِ امام حسین کی مجلسوں کا اہتمام ہوتا، دور دور سے علماء کو بلواتے اور فلسفے شہادت پر تقریریں کرواتے، ان کے مزاج میں مذہبی تعصب نہ تھا، دیوالی میں چراغاں کرواتے، تو ہولی کے گیتوں اور رنگوں میں دیوڑھی کا ہر فرد ڈوب جاتا، ساون کے جھولے سجتے، انھیں کئی طرح کے شوق تھے۔ تِل سنکرات کے موقع پر بی بی کے مقبرے کے عقب میں ایک بڑا سا شامیانہ لگواتے اور اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کرپتنگ بازی کے مقابلے د یکھتے اور جیتنے والوں کو انعامات سے نوازتے تھے۔ اس کے علاوہ زنان خانے میں نہایت حسین و جمیل بیگم صاحبہ کے ہوتے ہوئے بھی دیوڑھی میں طوائفیں بلوائی جاتیں، رقص و سرور کی محفلیں منعقد ہوتیں، ان طوائفوں میں جو بھی نواب صاحب کو پسند آجاتی وہ شب بھر دعوتِ عیش کے ساتھ مال و زر سے بھی نوازی جاتی، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ نہایت خدا ترس اور سخی انسان بھی تھے۔ دن کیا نکلتا غرض مندوں اور محتاجوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا اوران کی دیوڑھی سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہ لوٹتا تھا۔ ان میں ایک اور بھی خوبی تھی۔ شہر میں جب کبھیانھیں کوئی یتیم لڑکا یا لڑکی نظر آتی وہاسے اپنی دیوڑھی میں اٹھا لاتے۔ اس میں ہندو مسلم، سنی شیعہ کی کوئی تفریق نہ ہوتی۔ وہ نہ صرف ان بچوں کی پرورش کرتے بلکہ بلکہانھیں ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق تعلیم و تربیت کا انتظام بھی کرتے تھے۔ ان بچوں کا ہر طرح خیال رکھتے۔ کسی کوانھیں یتیم اور بے سہارا کہنے کی اجازت نہ تھی۔ ان کا معمول تھا دن بھر میں ایک وقت کا کھانا وہ ان بچوں کے ساتھ ہی کھاتے تھے۔ نواب صاحب کو مالک، آقا اور میاں جیسے الفاظ سے چڑ تھی۔ وہ گھر کے ملازمین سے لے کر ان بچوں سے تک ’باوا‘ کہلوانا پسند کرتے تھے۔ اکثر ان یتیم بچوں کے سر پر سے ہاتھ پھیرتے، کبھی کبھی بے حد جذباتی بھی ہوجاتے تھے اوران کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔ ایسے وقتان کی زبان سے اکثر نکلتا، ’’یا اللہ میں تیرے رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کر رہا ہوں، مجھے دکھاوے کی زندگی سے دور رکھ، مجھے کم از کم اس ایک سنت کا عامل بنادے تاکہ روز حشر میں اپنے نبی ﷺ کا سامنا کرسکوں۔
اور جیسے جیسے یہ بچے جوان ہوتے ان کے روز گار کا انتظام کرکے ان کی شادیاں کر دیتے اورانھیں دیوڑھی سے باہر کردیتے تاکہ وہ اب اپنی آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔
فضل محمد نے اپنے سامنے پھیلی ہوئی لمبی شاہراہ پر نظریں دوڑائیں۔ تانگے دوڑ رہے تھے۔ کچھ لوگاس کی طرح پیدل بھی تھے۔ اس کا دل نواب صاحب سے ملنے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا لیکن دوسری طرف خوفاس کے قدم روک رہا تھا۔ میں بھی توان ہی کا ایک پالکڑا ہوں۔ ایک لمبی سانساس کے منہ سے نکلی، مجھے کب اور کس عمر میں انھوں نے اٹھالایا تھا، وہ تو مجھے یاد بھی نہیں ہے۔ ہم سارے بچے ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ کھیلتے کودتے، شرارتیں کرتے اور اپنے اپنے مدرسوں کو جاتے تھے۔ ان بچوں میں یوں تو سکینہ بھی تھی، رادھا بھی تھی، عائشہ بھی تھی اور بھی بہت ساری لڑکیاں تھیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے رُخسانہ بہت پسند آتی تھی۔ اس وقت میں بارہ برس کا ہوچکا تھا اور وہ دس گیارہ برس کی ضرور ہوگی۔ میں چاہتا تھا کہ ہر دماس کے ساتھ ہی رہوں یااس کے آس پاس ہی رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس کا ہر دم خیال رکھتا تھا۔ ہم دونوں میں رفتہ رفتہ قربت ہو گئی تھی۔ یہ تواس وقت پتہ نہیں چلا تھا کہ یہ قربت محبت تھی یا کیاتھی؟ البتہ وہ بھی میرے ساتھ ہی رہنا پسند کرنے لگی تھی۔ ایک روز دوپہر کا وقت تھا میں دیوڑھی کے بالائی حصے پر کھڑا پتنگاڑا رہا تھا کہ رُخسانہ وہاں آگئی۔ ہم دونوں کے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ اسے دیکھتے ہی میں اپنی پتنگ سے غافل ہوگیا اور میری پتنگ میری مرضی کے حلاف ادھرادھر غوطے کھانے لگی۔ میرے ہاتھوں سے ڈور چھوٹ گئی اور میں نے اچانک بے خود ہوکر رخسانہ کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ ٹھیکاسی وقت زینے سے اوپر نواب صاحب آگئے اورانھوں نے ہم دونوں کو باہم دیکھ لیا۔ ان کی آنکھیں غصے سے ابل پڑیں۔ انھوں نے رخسانہ کو کچھ نہیں کہا اور میرا ہاتھ سختی سے پکڑ کر مجھے کھینچتے ہوئے اپنی بیٹھک میں لے گئے اور مجھے بے تحاشہ ما رنے لگے۔ میرے گال سرخ ہوگئے میری پیٹھ دکھنے لگی۔ وہ مجھے مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے، ’’میں اپنے تالاب کو گندہ نہیں ہونے دوں گا۔ مردود میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ میں بے حد گھبرا گیا تھا، اور پھر جیسے ہی وہ مجھے روتا بلکتا چھوڑ کر بیٹھک سے باہر نکلے میں ڈر گیا کہ شاید اب مجھے جان سے مارنے وہ اپنی بندوق لائیں گئے۔ میں وہاں سے بھاگ نکلا اور سیدھا ریلوے اسٹیشن پہنچا اور جو بھی ٹرین کھڑی تھیاس میں بیٹھ گیا اور قسمت نے مجھے کلیان پہنچادیا۔
اپنی سوچوں میں گم فضل محمد کب بڈی لین، مومن پورا، منظور پورہ، چیلی پورا ہوتا ہوا شاہ بازار پہنچ گیا تھااسے پتہ ہی نہیں چلا، اب جو نظریں اٹھائیں تو سامنے حضرت غوث اعظم کا چلّہ تھا، اور بے اختیاراس کے لبوں سے نکلا، یا غوث المدد المدد۔ پانچ کمانوں پر مشتمل عمارت میں شاید دینی مدرسہ قائم کردیا گیا تھا اور بچے قرآن خوانی میں مصروف تھے۔ وہ سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور عقیدت سے اس کی آنکھیں
بند ہوگئیں اور گیارویں شریف کواٹھنے والے نشان کا جلوسابھر آیا۔ نقارے زور زور سے بج رہے تھے۔ عوام کی بھیڑ تھی۔ دروازوں کھڑکیوں اور چھت پر سے خواتین اس جلوس کا نظارہ کر رہی تھیں۔ سبز. لباس میں ملبوس ایک شخص ہاتھوں میں بڑا سا نشان لیے ایک اونٹ پر سوار تھا۔ اس کے پیچھے میلادخواں تھے۔ چار پہیوں کی گاڑیوں پر طرح طرح کی دکانیں تھیں۔ اس جلوس میں بھیاس کی آنکھیں رُخسانہ پر ٹکی ہوئی تھیں اور وہ روشن بی کے آگے آگے چل رہی تھی۔
رخسانہ تمھیں کیا پتہ دیوڑھی سے فرار ہونے کے بعد مجھ پر کیا بیتی؟۔ حاجی ملنگ با با کی اونچی پہاڑی کے نیچے زائرین تانگوں سے اتر رہے تھے۔ آس پاس ہر قسم کی دکانیں تھیں۔ طرح طرح کی چیزیں تلی جا رہی تھیں۔ بھوک سے نڈھال میں ایک ایک چیز کو ندیدی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
’’ائے۔۔۔ کیا منگتا تم کو؟‘‘
’’بہت بھوک لگی ہے۔‘‘
’’پیسہ ہے جیب میں؟‘‘
بے بسی کی نظریں دکان دار کو دیکھ رہی تھیں تبھی بگھی سے ایک بارعب شحص نیچے اتر ا اورمیرے پاس آیااورمجھے نیچے سے اوپر تک دیکھتے ہوئے بولا، ’’کھانا مانگتا ہے؟‘‘
میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔
’’کیا نام ہے تیر ا؟‘‘
’’فضل محمد۔‘‘
’’اس کو جو بھی کھانے کو منگتا دے دو، پیسہ ہم دے گا۔‘‘
اس نے اپنی آنکھیں پوچھیں۔ رخسانہ وہ شخص پلمبر تھا۔ بڑے بڑے ٹھیکے لیتاتھا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے کر آگیا اور میں اسی کے پاس نوکری کرنے لگا۔ پلمبری کا کام سیکھنے لگا۔ داود سیٹھ دل کا بہت اچھا تھا مگر شراب بہت پیتا تھا۔ اس کی بیوی مرچکی تھی اوراسے ایک ابنارمل بیٹی تھی۔ جسے نہ بات کرنی آتی تھی نہ کسی بات کا ہوش تھا دس برس کی یہ لڑکی ملازمہ کی نگرانی میں بڑی ہو رہی تھی۔ میں چوبیس گھنٹے داود سیٹھ کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ وہ جب بھی نشے کی حالت میں اپنی بیٹی کو دیکھتا تو رونے لگتا، اس کے مستقبل کے لیے پریشان ہوجاتا، کبھی اللہ سے شکوے شکائتیں کرتا اور کبھی لڑنے لگتا تھا، اورپھر شراب کی کوئی حد نہ رہتی تھی۔ شروع شروع تو میں خاموش تماشائی رہالیکن رفتہ رفتہ سیٹھ کا غم بانٹنے لگا تھا۔ اسے سمجھانے لگا تھا، اس کی شراب نوشی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ میں پلمبری کا سارا کام سیکھ چکا تھا اور اب سیٹھ کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔ اس کا سارا کام میں ہی سنبھال رہا تھا۔ وہ مجھ سے بہت خوش تھا۔ اس کے گھر رہتے ہوئے میری صحت بھی بہت اچھی ہو گئی تھی اور میرا قد بھی نکل آیا تھا۔ وہ اکثر مجھے دیکھ کر
کہتا، ’’فضلو تیرے کو دیکھ کر سالا اپن کو اپنی جوانی یادآتا ہے۔‘‘
اور میں احسان مندی کی نظروں سے اسے دیکھنے لگتا۔
ایسے ہی ایک رات تھی۔ وہ گھر میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ میں اس کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا، اور کام کا حساب دے رہا تھا کہاس کی بیٹی آگئی، اس کے بدن پر برابر کپڑے نہیں تھے۔ میں نے فوراًاس کے بدن پر شال ڈالی اور ملازمہ کو آواز دی لیکن وہ گھر میں نہیں تھی۔ میں نے محبت سے اس کا ہاتھ پکڑا اوراسے کسی طرحاس کے کمرے میں پہنچا کر آیا تو دیکھا سیٹھ زار و قطار رو رہا تھا۔ مجھ سے اس کی یہ بے بسی دیکھی نہ گئی اور جیسے ہی میں نے ہمدردی سے اس کے کند ھے پر ہاتھ رکھا، وہ مجھ سے لپٹ گیا اور روتے روتے کہنے لگا، ’’فضلو میرے بعد میری اس معصوم بیٹی کا کیا ہوگا؟ کون سالا اس کو دیکھے گا، ؟‘‘
ہمیشہ کی طرح میں اس کی ڈھارس بندھانے لگا، ’’سیٹھ آپ کی بیٹی راج کرے گی۔ آپ اس طرح کیوں سوچتے ہو؟ آپ بہت دولتمند ہیں۔ کوئی نہ کوئی ایسا لڑکا مل جائے گا جو آپ کا کاروبار بھی سنبھالے گا اور بیٹی کو بھی۔ آپ اتنی فکر کیوں کرتے ہو؟‘‘
اس نے میرے دونوں بازو پکڑے اور مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے لے آیا اور میری آنکھوں میں جھانکنے لگا، ’’کیا وہ لڑکا تم نہیں ہو سکتا۔۔۔؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا۔۔۔ میں کیسے وہ ہوسکتا سیٹھ؟‘‘
’’کیوں نہیں ہوسکتا۔۔۔ فضلوتم ہمارا کام تو سنبھال لیا، ہماری بیٹی کو بھی۔۔۔‘‘ اس نے پوری قوت سے مجھے بھینچ لیا اور زور زور سے رونے لگا، ’’کیا تماس دن کا مافق ہم پر ترس نہیں کھائے گا۔۔۔ جب تم بھوکا تھا اور ہم۔۔۔ فضلو سمجھ لے آج اپن بھی ویسا ہی بھوکا ہے۔۔۔ بیٹی کی فکر سے اپن کو بے فکر کردے فضلو۔۔۔ اپن تیرے ہاتھ جوڑتا، بولے تو پاوں بھی پکڑے گا۔۔۔‘‘
’’نہیں سیٹھ نہیں۔۔۔!‘‘ میں نے بھیاسے لپٹالیا تھا، میری بھی آنکھیں بھر آئیں تھی، لیکن میں اس سوال کے جواب کے لیے ابھی تیار نہیں تھا۔ اس لیے خاموشی سے سیٹھ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’تم بولتا کیوں نہیں فضلو۔۔۔ کچھ تو بول۔‘‘
’’میں کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا۔‘‘
’’اوہ۔۔۔!‘‘ سیٹھ نے میری طرف لاچاری سے دیکھا، ’’میں بھول گیا تھا سالا، ایک ابنارمل لڑکی سے کون شادی بنائے گا۔‘‘ اس کی آواز بھرا گئی تھی اوراس کی آنکھوں میں رُکے ہوئے آنسو پھر ایک بار رواں ہو گئے تھے۔
’’یہ بات نہیں ہے سیٹھ۔۔۔ آپ اگر مجھ کو ایسا سمجھتے ہیں تو میں تیار ہوں، آپ حکم دیں میں حاضر ہوں۔‘‘
سیٹھ نے نہایت گرم جوشی سے مجھے لپٹا لیا، ’’ابھی میرے کو کبھی موت سے ڈر نہیں لگے گا فضلو۔‘‘
اور پھر نہایت دھوم دھام سے میری شادی ہو گئی۔
شادی کے بعد داود سیٹھ زیادہ دن زندہ بھی نہیں رہا۔ اب سارا کاروبار میرا تھا اور میں سیٹھ کہلانے لگا تھا۔ ابنارمل بیوی کو سنبھالنا ایک بڑا مسلہ تھا۔ اسے تو کسی چیز کا ہوش ہی نہیں تھا۔ مجھے اس پر بڑا ترس آتا تھا۔ میں ہرطرح سے اس کا خیال رکھتا تھا، مگر پھر بھی میں شوہر تھا باپ نہیں۔۔۔ مسلسل اس کی حماقتوں سے تنگ آکر ایک دن میں نے اسے بُری طرح ڈانٹ دیا تھا، تب سے وہ مجھ سے ڈرنے لگی تھی، میرے سامنے نہیں آتی تھی اور اکثر روتی رہتی تھی۔ شایداسے اپنے باپ کی یاد ستاتی ہوگی۔ اس کا کھانا پینا بھی بہت کم ہوگیا تھا۔ مجھے اپنے اس روئیے پر بے حد شرمندگی تھی۔ میں نے کئی باراس سے معافی بھی مانگی، لیکن اسے کیسے سمجھاتا کہ معافی کیا ہوتی ہے؟۔ وہ تو مجھے دیکھتے ہی خوف کے مارے چیخنے لگتی، چلانے لگتی، زور زور سے رونے لگتی، مجبوراً ملازمہ کے حوالے کرکے میں گھر سے باہر نکل جاتا تھا۔
وہ دن بدن کمزور ہو جا رہی تھی۔ ایک دناس نے ملازمہ سے کہہ کر دیوار پر سے داؤو سیٹھ کی تصویراتر وائی، اس کا قیمتی فریم توڑ دیا اور تصویر کو ہاتھوں میں لے کر بچوں کی طرح بلک بلکے کر رونے لگی۔ اس کے حلق سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھی، شاید وہ اپنے باپ سے کچھ کہہ رہی تھی۔ میں اس کی ہر بے معنی آواز کے معنی سمجھ رہا تھا، اور اپنے آپ سے شرمندہ ہو رہا تھا لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہاس کے ہاتھوں میں سے اس تصویر کو لے سکوں۔ بہت دیر تکاس کی یہی کیفیت رہی اور پھر وہ نڈھال ہوکر پلنگ پر لیٹ گئیاس کی آنکھیں بند تھیں اور آنسو اب بھی بہے رہے تھے۔ میں اس کے قریب پہنچا اوراس کی پیٹھ پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے اس کے آنسو پو چھے اور پھر نہایت محبت کے ساتھاسے لپٹا لیا۔ اس نے کوئی احتجاج نہیں کیا اور اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا۔ میری سمجھ میں آگیا کہاسے معافی کی نہیں میری محبت کی ضرورت تھی۔ میں نے ملازمہ کو آواز دی کہ وہاس کے لیے کھانا لے کر آئے۔ وہ میری طرف عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔ میں اسے اپنے ہاتھ سے کھلانے لگا۔ اس کا چہرہ کھلاٹھا اور وہ مجھ سے بے ساختہ لپٹ گئی اور میرے ذہن میں رُخسانہ در آئی۔ میں بہت دیر تکاسی عالم میں ڈوبا رہا، اسے میری بانہوں میں داؤد سیٹھ کی شفقتوں کا احساس ہو رہا تھا اور میں رخسانہ کی لذتوں کے احساس میں گم تھا۔
ہم دونوں کو زندگی گزارنے کی ایک کلید ہاتھ لگ گئی تھی۔ اب میں اس میں رخسانہ کو دیکھنے لگا تھا اوراس کی دیکھ بھال میں میری دلچسپی بڑھ گئی تھی۔ اس کی ہر حماقت میں مجھے اب لطف آنے لگا تھا۔ لیکن رُخسانہ تم تو شاید مجھے بھول گئی ہوگی، یا یہ بھی ہوسکتا کہ تمہاری شادی ہوچکی ہو اور تم اپنے شوہر کے ساتھ خوشگوار زندگی بتا رہی ہو۔؟ آہ۔۔۔ کاش تمھیں ایک بار ہی سہی دیکھ پاتا۔ تم سے پوچھ ہی لیتا کہ کیا میں تم کو کبھی یاد بھی آیا؟
اسے بے چینی سی ہونے لگی، محبت خوف پر غالب آگئی اوراس کے قدم بے اختیار نواب صاحب کی دیوڑھی کی طرفاٹھ گئے۔ اس نے ادھرادھر نظریں دوڑائیں تواسے عمارتوں پر بھی عجیب سیاداسی اور غربت کا احساس ہونے لگا، رنگ و روغن سے عاری دیواریں، کسی کے مکان کا چھجا جھکا ہوا، کسی گھر کی ایک آدھ ٹوٹی ہوئی دیوار، دروازے اور کھڑکیاں بے رونق، ٹاٹ کے بد رنگ پردے، آتے جاتے لوگوں کے بدن پر معمولی شیروانیاں، وہ سوچنے لگا، اس قدر غربت تو پہلے کبھی نہ تھی۔
وہ جیسے ہی نواب صاحب کے دیوڑھی کے سامنے پہنچا تو ششدر رہ گیا کہ دیوڑھی کی وہ شان و شوکت کہاں چلی گئی۔ صدر دروازے کی پھاٹک ٹوٹ کر لٹک گئی تھی۔ دیوڑھی کا رنگ روپ غائب ہوچکا تھا بلکہان پر کائی کی کالی رنگت چھاگئی تھی۔ خوبصورت کنگورے ٹوٹ چکے تھے۔ دیواروں کا جگہ جگہ سے پلسٹراکھڑ چکا تھا۔ یہ دیوڑھی، دیوڑھی نہیں بلکہ کوئی پُر اسرار عمارت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ کچھ لمحوں تک بس عمارت کو گھورتا رہا اور پھر جیسے ہی اندر داخل ہوا تواس کا رونا باقی رہ گیا تھا۔ بیٹھک کے سامنے لگی ہوئی چوبی جالی جگہ جگہ سے ٹوٹ کر گر گئی تھی۔ در و دیوار پتہ نہیں کب سے رنگ و روغن سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ سامنے کا بڑا سا حوض جس میں کبھی فوارے اپنی بہار دکھاتے تھے۔ سوکھا پڑا ہوا تھا۔ حوض کے اطراف بڑی بڑی گھانساگ آئی تھی۔ وہ طرح طرح کے پھولوں سے لدا ہوا باغ غائب ہوچکا تھا۔ اس نے بیٹھک کے دروازے پر دستک دی تو ایک بوڑھی ملازمہ نے دروازہ کھولا، اس نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو یاد آیا، یہ تو روشن بی ہے۔ اس نے اسے سلام کیا اور پوچھا، ’’باوا دیوڑھی میں ہیں؟‘‘
’’باوا تو نہیں ہیں، کہیں باہر گئے ہیں۔‘‘ اس نے غور سے فضل محمد کی طرف دیکھا، ’’لیکن میاں یہ تو بتاو تم کون ہو؟‘‘
’’مجھے نہیں پہچانا روشن بی خالہ۔۔۔ میں، میں نواب صایب کا پالکڑا فضل محمد ہوں جو کبھی دیوڑھی سے بھاگ گیا تھا۔‘‘
’’ارے اللہ تم ہو؟ آو اندر بیٹھک میں بیٹھو میں اماں کو بتاتی ہوں۔‘‘
وہ بیٹھک میں داخل ہوا، دھول اور گرد سے اٹا ہوا صوفہ، دوچار ٹوٹی ہوئی بے رنگ کرسیاں اور فرش پر وہ قالین بچھی ہوئی تھی۔ جس کا رنگ اب کوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔ دیواروں کا بھی یہی حال تھا۔ خوشنما مناظر کے وہ فریم جو کبھی بیٹھک کی شان بڑھاتے تھے اب دیواروں سے غائب تھے۔ میز بنا میز پوش کے موجود تھا اوراس پر چینی مٹی کی خوبصورت تصویریں دھندلی ہو چکی تھیں۔ وہ ایک ایک چیز کو دیکھ رہا تھا اور دروازے پر بیگم صاحبہ کھڑیاسے حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ جیسے ہیاس کی نظران پر پڑی، وہ نہایت ادب سے کھڑا ہوگیا ااس کا ہاتھ سلام کے لیے اٹھا اوراس کا سر جھک گیا۔
’’جیتے رہو۔۔۔ کیسے ہو میاں؟‘‘ ان کی آوازابھری اور وہ ملگجی صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’جی دعا ہے آپ کی۔‘‘ اس نے بیگم صاحبہ کے بدن پر معمولی سوتی ساڑی کو دیکھا، جبکہاس کے بدن پر اصلی ریشم کا کرتا تھا۔ وہ اپنے آپ میں بہت شرمندہ ہو رہا تھا۔
’’اس دن نواب صاحب کا جیسے ہی غصہاتر ا، انھوں نے تمھیں ڈھونڈھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن تم کہیں نہ ملے۔‘‘
اس کی گردن شرم کے مارے جھکی ہوئی تھی۔ اتنے میں رخسانہ چائے کی ٹرے اور پانی کا گلاس لیے داخل ہوئی۔ وہاس کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کیانگلی میں اب تکاس کی دی ہوئی چاندی کی انگوٹھی موجود تھی۔ اسے دیکھتے ہیں اس کے سارے بدن میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔
’’اسے پہچانا۔۔۔؟‘‘ انھوں نے فضل محمد کی طرف دیکھا، ’’یہ رخسانہ ہے۔‘‘
اس نے پھر ایک بار رُخسانہ کی طرف دیکھا، دبلی پتلی رخسانہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اب قدرے بھرے بھرے جسم کی ہو گئی تھی۔ لیکن اس کی گلابی رنگت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ اس کے بدن پر چھینٹ کا ہلکے سبز رنگ کا لباس تھا اور سفید اوڑھنی سر سے بدن تک جھول رہی تھی۔ اس نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے، سوال کیا، ’’اماں دیوڑھی کی یہ حالت کیسے ہوگئی؟‘‘
بیگم صاحبہ نے فوری کوئی جواب نہیں دیا، ان کی آنکھیں بند ہو گئیں، شاید وہ الفاظ تلاش کر رہی تھیں۔
’’بتائیے نا اماں۔۔۔ باوا کیسے ہیں؟‘‘
’’فضل محمد۔۔۔!‘‘ ان کے لب گویا ہوئے، ’’بربادی صرف ہماری نہیں پورا دکن برباد ہو گیا، ۱۹۴۸ کو یہاں پولیس ایکشن کے عنوان ایک قیامت ٹوٹی تھی اور آصف جاہی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ لاکھوں افراد مارے گئے۔ بے گھر ہونے والوں کی کوئی گنتی نہیں، اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں نے کسی فاتح فوج کی طرح اپنی ہی بہو بیٹیو ں کی عصمتیں لوٹیں، کنویں لاشوں سے بھر گئے، وہ غریب اور پس ماندہ افراد جن کی کئی کئی پیڑیوں کی دستگیری ہم جیسے جاگیرداروں اور زمین داروں نے کی تھی وہی گھر کے بھیدی ثابت ہوئے، انھوں نے چُن چُن کر نشاندہی کی اور و ہ لوٹ مارمچی کہ اللہ کی پناہ، اس کے بعد وہ کسان جو جاگیرداروں کے کھیتوں میں کام کرتے تھے اس پر قابض ہو گئے۔ مرحومین کے گھروں اور دیوڑھیوں پر لوگوں نے ناجائز قبضے کرلیے۔ پھرکول قاعدے کے قانون نے رہی سہی ار ضیات سے بھی بے دخل کردیا۔ جاگیرداری ختم ہو گئی۔ آمدنی کے سارے ہی ذرائع بند ہو گئے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہوا، یہاں تک کے ہمارا اکلوتا بیٹا بھی اسی پولیس ایکشن میں مارا گیا۔‘‘ بیگم صاحبہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ بہت دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پھرانھوں نے فضل محمد کی طرف دیکھا، ’’کہتے ہیں نا جب بُرا وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ سب لوگوں نے ہمیں بھی بے مصرف جان کر ہمارا ساتھ چھوڑ دیا، بس ایک رخسانہ رہ گئی جو سائے کی طرح ہم دونوں سے لپٹی ہوئی ہے۔ ہمارا ہر طرح خیال رکھتی ہے۔ نواب صاحب نے ان یتیم بچوں میں جو بھی بچ گئے تھے ان کی کسی طرح شادیاں کردی‘‘، پھرانھوں نے رخسانہ کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا، ’’بس ایک رخسانہ بچ گئی ہے جس کی شادی ہم نہ کر سکے۔‘‘
اوراس نے جیسے ہی رخسانہ کی طرف دیکھا تو وہ فوراً وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
’’اور ایسا بھی نہیں ہے کہاسے رشتے نہیں آئے۔ لیکن اس نے ہر بار ٹال دیا، جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔‘‘
فضل محمد کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹنے لگے تھے۔ لیکن اس نے اپنے خوشی پر قابو پالیا اور ایسا تاثر دیا گویا وہ بیگم صاحبہ کے غم میں پوری طرح شریک ہے۔ بیگم صاحبہ خاموش ہو گئیں۔ وہانھیں حیرت سے تکنے لگا۔ بہت دیر تک دونوں کے درمیان سناٹا چھایا رہا، آخراس نے اپنے آپ میں جسارت پیدا کی اور بڑی ہمت سے گویا ہوا، ’’اماں آج میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو۔۔۔‘‘ اگلے الفاظ کہنے کیاس میں ہمت نہیں ہوئی۔
بیگم صاحبہ کے چہرے پر مسرت دوڑ گئی، وہ سمجھی کہ شاید فضل محمد رُخسانہ کا ہاتھ مانگ رہا ہو۔ وہ فوراًگویا ہوئیں، ’’ہاں ہاں کہو، کیا کہنا ہے؟‘‘
’’میں آپ کی دیوڑھی کی مرمت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی بیگم صاحبہ ایک دماٹھ کر کھڑی ہو گئیں، ’’فضل محمد۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ بات کہنے کی، ہماری عزّت و توقیر ابھی اتنی مجروح نہیں ہوئی کہ تمہاری دولتاسے ڈھک سکے، جاو میاں۔۔۔ خوش رہو۔۔۔ ہم تمہارے جذبے کی قدر کرتے ہیں لیکن خدا کے لیے یہ الفاظ دوبارہ اپنی زبان پر مت لانا۔۔۔‘‘ وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئیں اور پھر آہستہ سے کہا، ’’ہاں نواب صاحب سے ملنا ہے تو کل ضرور یشریف لائیں۔ خدا حافظ۔‘‘ اور پھر تیزی سے وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئیں او ر وہ دیکھتا رہ گیا۔
فضل محمد شہر کی سب سے مہنگی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر جب وہ اپنے بستر پر لیٹا تواس کے ذہن میں پھر ایک بار رُخسانہ کا تصورابھر آیا، وہ سوچنے لگا کیا رخسانہ کواس عمر ہی میں محبت کا احساس ہوگیا تھا؟ کیا اسی لیے اس نے اس کی دی ہوئی انگوٹھی کو اب تک پہن رکھا ہے؟ کیا وہ واقعی مجھ سے اب تکاسی طرح محبت کرتی ہے؟کیا اسی لیے وہاٹھ کر چلی گئی تھی جب اماں بیگماس کی شادی بات کہہ رہی تھی؟کیا و ہ سمجھ گئی ہے کہ میں اس سے شادی کی خاطر ہی یہاں آیا ہوں؟
وہ بہت دیر تک رخسانہ کے بارے میں سوچتا رہا، کیسے کیسے خواب اپنی آنکھوں میں سجاتا رہا اور پھر کب نیند کی آغوش میں چلاگیااسے پتہ ہی نہیں چلا۔
دوسرے دن پھر ایک بار وہ دیوڑھی میں رخسانہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ دونوں کے درمیان خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے رخسانہ کی طرف دیکھا اور پھر آہستہ سے کہا، ’’رخسانہ۔۔۔!‘‘
’’ہوں۔۔۔!‘‘ رخسانہ کی گردن ابھی تک جھکی ہوئی تھی۔
’’سچ کہنا، کیا کبھی تمھیں میری یاد بھی آئی؟‘‘
’’میں نے تمھیں بھلایا ہی نہیں تھا تو یاد کیسے کرتی۔‘‘ اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
فضل محمد کا پورابدن خوشی سے جھوماٹھا، اس کا دل بے اختیار چاہا کہاٹھ کر رخسانہ کو گلے لگالے، لیکن اس نے فوراً اپنے آپ پر قابو پالیا اور نہایت بیتابی سے پوچھا، ’’وہ۔۔۔ وہ واقعہ یاد ہے۔۔۔ جب میں چھت پر پتنگاڑا رہا تھا اور تم آگئی تھی۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ا س لمس کا احساس آج تک میری رگ وپئے میں زندہ ہے۔‘‘
فضل محمد پر جیسے نشہ سا چھانے لگا، ’’کیا تم میرے ساتھ۔۔۔‘‘
لیکن اس کا جملہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ نواب صاحب آگئے۔ وہ فوراًاٹھ کر کھڑا ہوگیا اور رخسانہ وہاں سے جانے لگی تو نواب صاحب نے اسے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ ان کی آنکھوں میں کوئی غصہ نہیں تھا، انھوں نے فضل محمد کی طرف دیکھا، ’’تمہار ی امّاں نے بتایا کہ تم کل آئے تھے، بیس برس کے بعد تم یہاں کیوں آئے ہو یہ میں اچھی طرح سمجھ چکا ہوں۔ فضل محمد تم نے دیوڑھی کی خستہ حالت سے یہ تو اندازہ کرلیا ہوگیا کہ نواب رحیم یار خان کاکس بل اب نکل چکا ہے، تم نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ اب تم آسانی سے اس دیوڑی کے بام و در کو ناپ سکتے ہو، لیکن تم نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ یہ بوڑھا نواب اب بھی ا پنی آن کے لیے جان نہیں لے سکتا تو جان دے سکتا ہے۔‘‘
’’نواب صاحب میں آپ کے احسانوں کو بھولا نہیں ہوں، میری حقیقت ہی کیا ہے؟ آپ کی دیوڑھی کا ایک پالکڑا، آپ نے مجھے کل بھی غلط سمجھا تھا اور آج بھی غلط سمجھ رہے ہیں۔‘‘ فضل محمد اگردن جھکائے کھڑا تھا، ’’کل مجھے جس لڑکی سے محبت تھی آج میں آپ کی اجازت سے آپ کی دیوڑھی سے اسے بیاہ کر لے جانا چاہتا ہوں۔‘‘
نواب صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ سناتے، رُخسانہ کی آوازابھری، ’’میں شادی کرنا نہیں چاہتی۔‘‘ وہ وہاں سے اٹھی اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ فضل محمداسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ پھراس نے بے بسی سے نواب صاحب کی جانب دیکھا، تواس کے دل نے کہا، جس پولیس ایکشن سے تو بچ گیا تھا آخر بیس برس کے بعداس نے تجھے بھی تباہ کردیا۔ نواب صاحب کے چہر ے پر کوئی تاثر نہ تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور دیوڑھی سے باہر نکل گیا، ایک بار پھراس کے قدم ریلوے اسٹیشن کی طرفاٹھ رہے تھے۔