یہ سچ ہے روح کے اندر عقیدت سانس لیتی ہے

یہ سچ ہے روح کے اندر عقیدت سانس لیتی ہے
تبھی تحریر میں میری شہامت سانس لیتی ہے


کوئی ناراض ہو جائے تو اکثر سوچتی ہوں میں
بشر کے دل میں جانے کیوں عداوت سانس لیتی ہے


شجر ہوں یا حجر ہوں یا گلوں کے رنگ ہوں صاحب
ہواؤں میں فضاؤں میں یہ قدرت سانس لیتی ہے


ذرا خوشیاں وہاں بھی بانٹ کر تم دیکھنا لوگو
اندھیروں میں جہاں گھنگھور غربت سانس لیتی ہے


سنو گر جستجو منزل کی ہے تو جان لینا تم
سفر کے راستوں میں ہی مسافت سانس لیتی ہے


تری خاموشیاں صاحب بڑی ہی جان لیوا ہیں
ترے ہونے سے ہی مجھ میں محبت سانس لیتی ہے


انا کے بت کو ٹھوکر مارنا ہی کامیابی ہے
انا کے بت میں ہی سچ ہے خباثت سانس لیتی ہے


اگر مطلب پرستی دل میں گھر کر لے تو پھر یارو
دلوں کے درمیاں بس یہ تجارت سانس لیتی ہے


پڑھے گی دل سے جب دنیا تجھے اے شاذؔ تو سن لے
سمجھ جائے گی تجھ میں کیوں ملاحت سانس لیتی ہے