چاہتوں کے زوال پر چپ ہوں

چاہتوں کے زوال پر چپ ہوں
دل کے ہر اک ملال پر چپ ہوں


دے گئے دھوکہ جو محبت میں
میں تو ان کے کمال پر چپ ہوں


دے سکے ناں جواب تم جس کا
آج بھی اس سوال پر چپ ہوں


تم کو چاہت کی چاہ مارے گی
ہائے طوطے کی فال پر چپ ہوں


کیا کہوں تجھ سے اے مرے ہمدم
میں تو اپنوں کی چال پر چپ ہوں


جب قلم کی روانیاں دیکھیں
اس کے لفظوں کے جال پر چپ ہوں


عکس اس کا مجھے دکھاتا ہے
آئنے کے خیال پر چپ ہوں


آبگینہ ہے ٹوٹ جائے گا
دل کی ایسی مثال پر چپ ہوں


جب کرونا کی ہے وبا پھیلی
درد کے ایسے سال پر چپ ہوں


من کا پنچھی یہ شاذؔ کہتا ہے
میں محبت کی ڈال پر چپ ہوں