بڑھنے لگی ہے بھیڑ میں تنہائی آج کل
بڑھنے لگی ہے بھیڑ میں تنہائی آج کل
شاید ہوئی ہے خود سے شناسائی آج کل
رنج و الم کی آنچ میں رشتے بھسم ہوئے
اب چل رہی ہے درد کی پروائی آج کل
ہم سے بچھڑ کے جب سے وہ پردیس جا بسا
سونی پڑی ہے من کی یہ انگنائی آج کل
جدت نے کچھ تو پھونکا ہے پڑھ کر دیار میں
ڈرنے لگی ہے جھوٹ سے سچائی آج کل
اے دل میں تیری بات پہ کیسے عمل کروں
ماحول ڈس رہا ہے کرونائی آج کل
رخ پر نقاب اوڑھ کے پھرنے لگے سبھی
لگتی ہے ہر نظر بھی تو کترائی آج کل
موسم کے بھی مزاج کا بدلا ہے رنگ تو
ہر پھول ہر کلی بھی ہے گدرائی آج کل
گزرا ہے شاذؔ دل سے محبت کا قافلہ
لگنے لگی ہے جیت یہ پسپائی آج کل