رنج و الم کی باڑھ میں ایمان بہہ گیا
رنج و الم کی باڑھ میں ایمان بہہ گیا
بیٹی کے جب جہیز کا سامان بہہ گیا
کچھ اس طرح سے ٹوٹ کے روئے تمام رات
جو بچ گیا تھا آخری ارمان بہہ گیا
کل رات میں نے خواب میں دیکھا ہے ایک خواب
انصاف آنکھیں پا گیا میزان بہہ گیا
یہ راز کھل سکا نہ کبھی اس شعور پر
کیوں موج غم میں روح کا جزدان بہہ گیا
خالق کو جان کر بھی نہ پہچان پایا جب
اس وقت اس غرور میں شیطان بہہ گیا
ہلکان ہو رہی ہوں میں یہ سوچ سوچ کر
سیلاب شر میں کیوں بھلا انسان بہہ گیا
سجدے میں گر کے اشک بہائے تھے شاذؔ چار
دل کا مکین روح کا خلجان بہہ گیا