دل رواں جس کا ہو اک مرشد کامل کی طرف
دل رواں جس کا ہو اک مرشد کامل کی طرف
کون روکے گا اسے جانے سے منزل کی طرف
چاہ کر بھی نہ اگر غم کا مداوا ہو تو پھر
میں چلی جاتی ہوں ایمان مفصل کی طرف
یہ مری ماں کی دعا کا ہی ثمر ہے جو مجھے
تند لہروں نے اچھالا بھی تو ساحل کی طرف
چاہتا کون ہے راہوں میں بھٹک جانا مگر
راستہ شر کا ہی لے جاتا ہے جاہل کی طرف
زنگ جب روح کے اوصاف کو لگتا ہے تو پھر
دھڑکنیں دوڑ کے جاتی ہیں نوافل کی طرف
دل مجھے کہتا ہے دھک دھک کی زباں میں یہ ہی
جنگ کر نفس سے تو دیکھ نہ باطل کی طرف
شاذؔ ہو جائے گا طے زیست کا بے نام سفر
دیکھ مت تشنہ نگاہوں سے تو محمل کی طرف