یہ نہیں ہے کہ مجھے تیری نظر یاد نہیں
یہ نہیں ہے کہ مجھے تیری نظر یاد نہیں
اس نے کیا مجھ سے کہا تھا یہ مگر یاد نہیں
بے نیازی یہ نہیں گم شدگی ہے اے دوست
کہ مجھے ربط قدیم در و سر یاد نہیں
وہی شور ارنی اور وہی بے باکیٔ شوق
کہ محبت کو اگر اور مگر یاد نہیں
دل خود کام ہے آسودۂ عیش منزل
اسے دل سوزیٔ یاران سفر یاد نہیں
ہائے یہ گم شدگی روح کی تقدیر میں تھی
آج پوچھو کہ کہاں گھر ہے تو گھر یاد نہیں
دیدنی ہے یہ سراسیمگیٔ دیدۂ شوق
کہ ترے در پہ کھڑے ہیں ترا در یاد نہیں
زندگی کیا ہے فقط ایک جنون رفتار
کہ سفر میں ہیں مگر وجہ سفر یاد نہیں
پھر وہی شوق کی بے باک خرامی رضویؔ
سختیاں راہ کی اے مرد سفر یاد نہیں