دو دن کی ہنسی دو دن کی خوشی انجام‌ عمل رونا ہی پڑا

دو دن کی ہنسی دو دن کی خوشی انجام‌ عمل رونا ہی پڑا
اک عمر گنوائی جس کے لئے اک روز اسے کھونا ہی پڑا


ہم اور علائق سے چھوٹیں ممکن نہیں جب تک ہم ہم ہیں
دریا کو بہ ایں آزاد روی زنجیر بہ پا ہونا ہی پڑا


بازار میں آ کر ناداں دل منظر کے کھلونوں پر مچلا
اور پیر خرد کو کاندھے پر انبار نظر ڈھونا ہی پڑا


کیا جانئے آخر کیوں اتنی آزردہ رہی ہونٹوں سے ہنسی
قسمت پہ بھی ہنسنا جب چاہا آئی نہ ہنسی رونا ہی پڑا


ہم تخم محبت جنت سے سینے میں چرا کر لے آئے
اس ریت میں کیا اگتا وہ بھلا ہاں لائے تھے بونا ہی پڑا


بیدار دلی کے منصوبے ہم کیا کیا باندھ کے آئے تھے
دنیا نے تھپک کر لوری دی نیند آ ہی گئی سونا ہی پڑا