تاب ذرے ہیں اگر ہو تو وہی دل ہو جائے

تاب ذرے ہیں اگر ہو تو وہی دل ہو جائے
عام جلوہ ہے ترا جو متحمل ہو جائے


تیرا ہر شعبدہ اے حسن حقیقت ٹھہرے
ہم کوئی نقش بنا لیں تو وہ باطل ہو جائے


لاکھ بے باک نگاہوں سے نگاہیں لڑ جائیں
ایک سہمی سی نظر ہو تو وہ قاتل ہو جائے


ڈوبنا شرط سفر ہے مجھے اے شورش بحر
ورنہ گرداب کو دوں حکم تو ساحل ہو جائے


تجھ کو قدرت ہے کہ ہر ذرہ کو اک دل کر دے
مجھ کو حسرت ہے کہ جو دل ہے مرا دل ہو جائے


اپنی تصویر مجازی کوئی رکھ دو کہ کہیں
کاروان نگہ شوق کو منزل ہو جائے


ہمت عشق کہ ہے حسن کی فطرت کا یہ راز
سو کو بسمل کرے اور ایک کا بسمل ہو جائے


آج تک تک نہ سکے دل کوئی اپنے قابل
تم کہ پتھر کو جو تاکو تو وہی دل ہو جائے


حیف اپنے سفر شوق کی قسمت رضویؔ
پاؤں تھک جائیں جہاں بس وہیں منزل ہو جائے