ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا

ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا
شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا


جس کو کہیں گھر پھونک تماشا بس وہ تماشا آپ نے دیکھا
آپ کی بجلی خوش ہے کہ اس نے مشت خس آدم کو جلایا


غیر کو جھڑکی ہم پہ عنایت ہو گئی آخر جان کو آفت
بزم ازل میں تم نے بلا کر کس لئے نامحرم کو جلایا


زندگی اپنی یاس و تمنا آگ پہ آگ اور شعلے پہ شعلہ
دل کو ہمارے غم سے جلا کر شعلۂ رخ سے غم کو جلایا


کیسی جلن تھی کیسی جلن ہے جل چکے پھر بھی جل نہیں چکتے
کاش کوئی یوں تم کو جلا دے جیسے کہ تم نے ہم کو جلایا


آگ ہے بجلی آگ ہیں ذرے آگ ہے سورج آگ ہیں تارے
ہم نے نہ کی تھی شوخ نگاہی آپ نے کیوں عالم کو جلایا