یہ ممکن ہے کہ یوں ہم نے تمہیں اکثر رلایا ہو
یہ ممکن ہے کہ یوں ہم نے تمہیں اکثر رلایا ہو
مگر یہ بھی تو ہے تم نے ہمیں اکثر ستایا ہو
بگڑتی بات ہے جب جب مجھے یوں کوستی ہو تم
کہ جیسے زندگی کا ہر ستم مجھ سے ہی پایا ہو
ہر اک گولی طمنچے سے نکل کر سوچتی ہوگی
اگر لینی ہی ہیں جانیں تو کیوں اپنا پرایا ہو
ہمارے قبر پر اکثر سلگتی دھوپ رہتی ہے
جو زندہ تھے تو چاہا تھا تری زلفوں کا سایہ ہو
تری آنکھوں کی وسعت میں بھری ہو کہکشاں شاید
تری نازک سی پلکوں نے فلک شاید اٹھایا ہو
ہماری خاک اڑ کر شاخ سے کرتی ہے سرگوشی
اٹھا لو پھول یہ شاید ہوا نے ہی گرایا ہو
ملاقاتیں تو ہوتی ہیں مگر پوری نہیں ہوتی
کہ جیسے نیند میں گہری ادھورا خواب آیا ہو
ہوئی ہے آج بے پردہ تری یہ بے رخی کچھ یوں
مرے حالات نے رخ سے ترے پردہ ہٹایا ہو
لپٹ کر آگ سے دیکھو الخؔ کی لاش جلتی ہے
کسی ہمدرد نے آ کر جو سینے سے لگایا ہو