کام بس نام کا نہیں ہوتا
کام بس نام کا نہیں ہوتا
نام کچھ کام کا نہیں ہوتا
آج کی شام کا جو عالم ہے
ہر کسی شام کا نہیں ہوتا
چین حد سے بڑھا تو یاروں پھر
چین آرام کا نہیں ہوتا
یوں تو اس بے خودی کے مسئلے میں
سب گناہ جام کا نہیں ہوتا
آگے آغاز کا طریقہ تھا
اب تو انجام کا نہیں ہوتا
انتظار آہٹوں کا جتنا ہے
اتنا پیغام کا نہیں ہوتا
درد تو صرف درد ہے کے درد
خاص یا عام کا نہیں ہوتا
ایک پل میں نے بھی تو باندھا ہے
پیار بس رام کا نہیں ہوتا
ہر کوئی دروپدیؔ بچے اتنا
حوصلہ شیام کا نہیں ہوتا