بھول جائیں ہم اسے ایسا نظارہ تو نہیں
بھول جائیں ہم اسے ایسا نظارہ تو نہیں
یاد پر آتا رہے یہ بھی گوارہ تو نہیں
دل دھڑکتا ہے دھڑکتا ہے دھڑکتا ہے مرا
وہ تمہارا وہ تمہارا وہ تمہارا تو نہیں
آج کل پتھر اٹھا کر سوچتا ہے ہر کوئی
سامنے انسان ہے لیکن ہمارا تو نہیں
خواب کتنے شاد ہیں اور رات بھی آباد ہے
جاگ کر میں نے ہی خود ان کو سنوارا تو نہیں
بات بڑھنے کے لیے میں کس قدر بے تاب ہوں
اور بڑھانے کی طرف تیرا اشارہ تو نہیں
ہار جانے میں مزا ہے تم سے گر ہو سامنا
جیتنا ویسے الخؔ کو ناگوارا تو نہیں