شوخ پتے لہلہاتے ہیں شجر کے
شوخ پتے لہلہاتے ہیں شجر کے
جیسے کوئی اشتہار اپنے ہنر کے
کتنے کچے راستے ہیں اس شہر میں
شعر جیسے بن پڑے ہوں بے بحر کے
سو مکانیں پھر کہیں توڑی گئیں تو
ایک پتلا پھر کہیں آیا ابھر کے
جب کریں گے گفتگو تنہائیوں سے
تب بنیں گے ہم سفر خود ہم سفر کے
پاس بیٹھو بھی کبھی کاجل لگائے
حوصلے بھی دیکھ لو میری نظر کے
مفلسی سے دور تھوڑی ہے امیری
فاصلے ہیں چند قسمت و سفر کے
گر پڑیں تب ڈر گئیں بوندیں زمیں سے
ہاتھ پکڑے ہی رہی بہتی نہر کے
بانٹ لے دنیا جو ٹکڑے ہو گئے ہیں
زیست و ہستی کے دل و جان و جگر کے
یوں قلم کو کاغذوں میں گاڑ دینا
کیا یہی آثار ہیں تیرے غدر کے
اپنے اندھے پن کے بارے میں تو سوچو
خواب الخؔ کیوں دیکھتے ہو تم سحر کے