یہ مجھ میں جو بے انتہا تنہائی ہے

یہ مجھ میں جو بے انتہا تنہائی ہے
اس دشت کی آب و ہوا تنہائی ہے


میں درد کے نغمے سناؤں گا تمہیں
تم جان لینا مدعا تنہائی ہے


مجھ تک پہنچنے کو ہے اک راہ عمل
اور جان لو وہ راستہ تنہائی ہے


جو بھیڑ میں چہرے کہیں گم ہو گئے
ان سے مرا اب رابطہ تنہائی ہے


میں اس مقام ذات تک لایا گیا
ہر ابتدا ہر انتہا تنہائی ہے


جس کو یہاں پر کامیابی مل گئی
اس کی سزا تنہائی یا تنہائی ہے