یہ میرے دل کی وسعت ہے کہاں تک

یہ میرے دل کی وسعت ہے کہاں تک
زمیں سے لے کے حد آسماں تک


تمہارا حسن ہے کون و مکاں تک
کلی سے گل سے ہر اک گلستاں تک


تیری الفت نے مجھ کو کیا بنایا
عطا کی ہے حیات‌‌ جاوداں تک


کدھر پہ برق سرگرداں پھری ہے
پہنچ پائی نہ میرے آشیاں تک


سنائے داستاں غیروں کی اکثر
نہ آئی اپنی ہی حالت زباں تک


تیرے جیسا نہ کوئی دیکھ پایا
نگاہ شوق پھر آتی جہاں تک


پریشاں ہو کے آلام جہاں سے
ہم آئے آج تیرے آستاں تک


نسیمؔ ایسا مرا حال جنوں ہے
ہے اس کا سلسلہ سود و زیاں تک