پھر اگے ایک آفتاب نیا
پھر اگے ایک آفتاب نیا
اور پھولوں پہ ہو شباب نیا
لکھوں اس طرح داستان جہاں
گویا ہر اک ورق ہو باب نیا
صاف کر جو بھی تھے گناہوں کو
اے خدا مجھ سے لے حساب نیا
اس کی صورت کا جب خیال آیا
دل میں اترا ہے ماہتاب نیا
اس نے مجھ سے عجب سوال کیا
تھا مرا بھی کوئی جواب نیا
جس کو ہم آب جو سمجھتے تھے
سامنے تھا وہی سراب نیا
میری ہستی ہے کیا نسیمؔ ایسی
جیسے ہو کانچ کا حباب نیا