گلوں میں رنگ نہیں موسم بہار نہیں

گلوں میں رنگ نہیں موسم بہار نہیں
مری حیات مگر پھر بھی سوگوار نہیں


ہے دور عشق یہاں جبر و اختیار نہیں
سکون دل کے لئے کوئی بے قرار نہیں


یہی عروج محبت یہی اصول وفا
کسی سحر کے لئے شام انتظار نہیں


غم و خوشی تو یہاں آتے جاتے رہتے ہیں
مگر یہ زیست کا اے دوست اعتبار نہیں


ہر ایک شے میں اسی کا جمال ہے موجود
دل و نظر کو مری کوئی انتشار نہیں


الٰہی بخش دے ہر ایک کے گناہوں کو
وہ کون ہے جو ترے آگے شرمسار نہیں


نسیمؔ آ کے پریشاں ہے ایسے صحرا میں
جہاں نہ آب و گیاہ گل نہیں ہے خار نہیں