سناؤں داستاں تم کو الم کی
سناؤں داستاں تم کو الم کی
نہیں ہے انتہا کچھ میرے غم کی
میں خود ہی ہوں سزا وار زمانہ
کسی نے میری خاطر آنکھ نم کی
میرا محبوب جب مجھ کو ملا ہے
نہیں حاجت کسی رحم و کرم کی
ہوئے ہیں راستے ہموار خود ہی
کوئی پروا نہیں ہے پیچ و خم کی
میری تقدیر وابستہ تمہیں سے
یہی تحریر ہے لوح و قلم کی
حوادث ہیں ہمیشہ ساتھ میرے
نہیں ہے بات کچھ جور و ستم کی
نسیمؔ اب ایک ہی میری خوشی ہے
تمنائے دلی باب حرم کی