یہ مت پوچھو قصہ کیا تھا
یہ مت پوچھو قصہ کیا تھا
کیا بتلائیں گزرا کیا تھا
ہم نے دو پل کے ریلے میں
دیکھا بھی تو دیکھا کیا تھا
ہجر و وصل اور رشتے ناطے
چار دنوں کا میلہ کیا تھا
لب نے ہنس کر بات بنا دی
کون یہ سمجھا ٹوٹا کیا تھا
سب کو اپنا کر بھی تنہا
اس سے بڑھ کر دھوکا کیا تھا
دل بھی غم بھی اور سپنے بھی
سب اس کے تھے اپنا کیا تھا
راگؔ نہ دیکھا آئینہ بھی
چہرہ مجھ سے کہتا کیا تھا