عشق کی راہ میں مر جائے ضروری تو نہیں
عشق کی راہ میں مر جائے ضروری تو نہیں
آدمی حد سے گزر جائے ضروری تو نہیں
ہیں دعا گو جو ابھی ہاتھ پسارے اپنے
ان کی تقدیر سنور جائے ضروری تو نہیں
میں نے مانا کہ کٹھن راہ گزر ہے لیکن
رائیگاں میرا سفر جائے ضروری تو نہیں
نیک اعمال کی بتلائے فضیلت جو سدا
خیر کا کار وہ کر جائے ضروری تو نہیں
چپ کے بستر پہ جو لیٹا ہے خموشی اوڑھے
ایک آواز سے ڈر جائے ضروری تو نہیں
گل کی خاطر نہیں پھیلا مرا دامن لیکن
یہ فقط خار سے بھر جائے ضروری تو نہیں
جرم کا مجھ پہ جو الزام لگا ہے انجمؔ
وہ کسی اور کے سر جائے ضروری تو نہیں