حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ہر بشر مجھ کو
حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ہر بشر مجھ کو
زمانہ بولتا ہے تم بھی کہہ لو درد سر مجھ کو
میں ہوں وہ شمع جس کی قدر و قیمت صرف اتنی ہے
کسی نے طاق پر رکھا کسی نے قبر پر مجھ کو
بھروسے کی سڑک پر بغض کے اتنے گڑھے دیکھے
کہ اب اک شخص بھی لگتا نہیں ہے معتبر مجھ کو
ہواؤں نے تو کشتی کا مری رخ موڑ ہی ڈالا
اے لہرو تم بھی کر لو آ کے اب زیر و زبر مجھ کو
فریب منزل مقصد سے واقف ہو گیا ہوں میں
خدارا آپ رہنے دیجئے محو سفر مجھ کو
گھرا ہوں آج ظلمت میں مگر امید ہے انجمؔ
کہ مل ہی جائے گی کل زندگانی کی سحر مجھ کو