ابھی ہے موسم غموں کا لیکن میں مسکراؤں تو حرج کیا ہے

ابھی ہے موسم غموں کا لیکن میں مسکراؤں تو حرج کیا ہے
کہ نوحہ خوانی کے دور میں اک غزل سناؤں تو حرج کیا ہے


دکھانا ہے آفتاب کو یہ کہ کون ہے میری شب کا ساتھی
میں شام ہونے سے قبل ہی اک دیا جلاؤں تو حرج کیا ہے


ہے دقتوں سے بھرا سفر جب نہیں ہے کوئی بھی ساتھ میرے
تو اپنے سائے کو میں اگر ہم سفر بناؤں تو حرج کیا ہے


لگی ہیں پابندیاں ملاقات پر یہ سچ ہے کئی دنوں سے
مگر میں راتوں کو تیرے خوابوں میں آؤں جاؤں تو حرج کیا ہے


زمانہ پچھلے زمانے کو یاد کر کے رہتا ہے کھویا کھویا
مگر میں اگلے دنوں کی فکروں میں ڈوب جاؤں تو حرج کیا ہے


فریبی ہے یہ زمانہ مجھ کو ہمیشہ دیتا رہا ہے دھوکا
اگر میں خود سے ہی آج انجمؔ فریب کھاؤں تو حرج کیا ہے