یہ کیسے غم نکھارا جا رہا ہے
یہ کیسے غم نکھارا جا رہا ہے
فقط اب دن گزارا جا رہا ہے
بڑا ہی پیار کرتے ہیں وہ مجھ سے
بدن یہ کہہ سنوارا جا رہا ہے
کبھی آپس کبھی گھر اور کبھی تم
مجھے کشتوں میں مارا جا رہا ہے
ذرا سا کانپ اٹھے ٹھہرے پربت
یہ کس کو یوں پکارا جا رہا ہے
غضب لاشوں پہ کرتے رقص ہیں جو
وہ کہتے ہیں مدارا جا رہا ہے
نئے پودے سبھی کو روپنے ہیں
پرانا دشت وارا جا رہا ہے
ہوا دیدار مرتے وقت ہمدم
ترا پونمؔ خسارہ جا رہا ہے