غریبوں کے آنگن ہیں سب سے بڑے
غریبوں کے آنگن ہیں سب سے بڑے
یہ دنیا کے گلشن ہیں سب سے بڑے
بڑی مختصر سی رہی بات یہ
کہ ہم اپنے دشمن ہیں سب سے بڑے
ذرا دیکھ جلتے ہوئے شہر کو
سیاست کے روزن ہیں سب سے بڑے
کہاں سے چلے ہم کہاں کے لیے
ترقی کے توسن ہیں سب سے بڑے
یہ خانہ بدوشی یہ آوارہ پن
محبت میں پھسلن ہیں سب سے بڑے
ترا عشق ہم کو تری آرزو
خوشی کے یہ قدغن ہیں سب سے بڑے
وہ پونمؔ کی بے چین راتیں صنم
مرے ساتھ رہزن ہیں سب سے بڑے