ٹکڑوں میں تم کیوں پھرتے ہو
ٹکڑوں میں تم کیوں پھرتے ہو
کہتے کچھ ہو کچھ دکھتے ہو
راتوں میں ہے کتنا سناٹا
ساری راتیں کیوں جگتے ہو
آنکھوں میں ہیں نیندیں اتنی
کیا کرتے ہو کب سوتے ہو
تھک کر میں خود کو کہتا ہوں
تم چادر سے کیوں لمبے ہو
جانے والا کب لوٹے گا
دل سے اب بھی تم بچے ہو