یہ کیسا تغافل ہے بتا کیوں نہیں دیتے
یہ کیسا تغافل ہے بتا کیوں نہیں دیتے
ہونٹوں پہ لگا قفل ہٹا کیوں نہیں دیتے
جو مجھ سے عداوت ہے سزا کیوں نہیں دیتے
اک ضرب مرے دل پہ لگا کیوں نہیں دیتے
دشمن ہوں تو نظروں سے گرا کیوں نہیں دیتے
مجرم کو سلیقے سے سزا کیوں نہیں دیتے
کس واسطے رکھتے ہو اسے دل سے لگائے
چپ چاپ میرا خط یہ جلا کیوں نہیں دیتے
مانا کہ یہاں جرم ہے اظہار محبت
خاموش نگاہوں سے صدا کیوں نہیں دیتے
اس درد مسلسل سے بچا لو مجھے للہ
جب زخم دیا ہے تو دوا کیوں نہیں دیتے
نفرت تمہیں اتنی ہی اجالوں سے اگر ہے
سورج کو بھی پھونکوں سے بجھا کیوں نہیں دیتے
شعلوں کی لپٹ آ گئی کیا آپ کے گھر تک
اب کیا ہوا شعلوں کو ہوا کیوں نہیں دیتے
اب اتنی خموشی بھی صہیبؔ اچھی نہیں ہے
احباب کو آئینہ دکھا کیوں نہیں دیتے