سر تسلیم مرا خم نہیں ہونے دیتا

سر تسلیم مرا خم نہیں ہونے دیتا
وہ مرا رب مجھے برہم نہیں ہونے دیتا


غیب سے آج بھی کرتا ہے حفاظت میری
سر نگوں وہ مرا پرچم نہیں ہونے دیتا


جب بھی ملتا ہے مجھے زخم نیا دیتا ہے
وہ ملاقات کو مرہم نہیں ہونے دیتا


شعر کہنے کا وہ انداز ملا ہے مجھ کو
جوش محفل مجھے مدھم نہیں ہونے دیتا


اب تو دربار میں بھی ذکر ہمارا ہے صہیبؔ
کیا عجب شخص ہے سر خم نہیں ہونے دیتا