بجلی کہیں گرائے زمانے گزر گئے
بجلی کہیں گرائے زمانے گزر گئے
جلوہ اسے دکھائے زمانے گزر گئے
تم سے نگاہ ہٹتی نہ تھی وہ بھی وقت تھا
لمحات اب وہ آئے زمانے گزر گئے
کیوں چھانتے ہو خاک میاں کوئے یار کی
اس کو تو خط جلائے زمانے گزر گئے
کیسے کہیں کہ رابطہ اس سے رہا نہیں
جس کو ہمیں بھلائے زمانے گزر گئے
اک بار اس کی دید کی ہم کو ہے آرزو
یاروں فریب کھائے زمانے گزر گئے
یہ کس گمان میں ہو ہمیں زیر کرکے تم
ہم کو تو سر جھکائے زمانے گزر گئے
ہمت ہے اب نہ قوت ایمان و آگہی
وہ کشتیاں جلائے زمانے گزر گئے
آتی ہے اب چمن سے یہ خوشبو صہیبؔ کیوں
جب کہ بہار آئے زمانے گزر گئے