مے کشی کی شراب کی باتیں
مے کشی کی شراب کی باتیں
توبہ توبہ جناب کی باتیں
میں نے کب پی حساب سے یا رب
مجھ سے پھر کیوں حساب کی باتیں
تو غفور الرحیم ہے بے شک
پھر یہ کیسی عذاب کی باتیں
ایروں غیروں سے ہم نہیں کرتے
دل خانہ خراب کی باتیں
کتنا کھل کھل کے لوگ کرتے ہیں
شرمساری حجاب کی باتیں
دل نشیں دل فریب ہوتی ہیں
دیکھو بھنورے گلاب کی باتیں
گل و غنچہ بھی جل کے کرتے ہیں
اس کے حسن و شباب کی باتیں
اس کا چہرہ کتاب جیسا ہے
پڑھیے پڑھیے کتاب کی باتیں
رات تنہا ہے ہم بھی تنہا ہیں
چھوڑو بھی یہ حجاب کی باتیں
یار مکر و فریب لگتی ہیں
آج کل انقلاب کی باتیں
کیا قیامت صہیبؔ آ پہنچی
تیرے منہ سے ثواب کی باتیں