یہ کیسا دور یہ کیسی صدی ہے

یہ کیسا دور یہ کیسی صدی ہے
جدھر دیکھو ہجوم بے دلی ہے


بس اتنی سی ہماری زندگی ہے
سویرا آ گیا رات آ رہی ہے


وہی شب ہے وہی بارہ دری ہے
چلا آ تو کہ بس تیری کمی ہے


چراغوں نے نہ جانے کہہ دیا کیا
ہوا دہلیز پر ٹھہری ہوئی ہے


سحر دم قتل ہو جائے گا سورج
تبھی یہ رات بھی سہمی ہوئی ہے


چلو اس پیڑ کے نزدیک دیکھو
مہک سی کچھ لہو کی آ رہی ہے


ترے چہرے کی نزہت دیکھ لی کیا
شگفتہ کیوں چمن کی ہر کلی ہے


ابھی سیراب ہو جائیں گے ہم لوگ
وہ دیکھو سامنے بہتی ندی ہے


کوئی گھر چھوڑ کر ہے جانے والا
دریچے سے اداسی جھانکتی ہے


ستارے دم بخود ہیں چاند خاموش
سہانی رات رخصت ہو رہی ہے


جہاں چھڑتے تھے خوشیوں کے ترانے
مجیبؔ اس گھر پہ قابض خامشی ہے