یہ جی میں ہے کہ محبت کا باب لکھوں گی
یہ جی میں ہے کہ محبت کا باب لکھوں گی
جناب من کو میں عالی جناب لکھوں گی
کبھی جو بھولے سے پڑھ لے وہ جان ہی لے گا
میں راز عشق کو یوں بے حساب لکھوں گی
جو حوصلہ ہے تو منہ پھیر کر گزر جائے
میں اس کی چشم کرم کو عتاب لکھوں گی
مرے نصیب کا دار و مدار ہے اس پر
دل خراب کو خانہ خراب لکھوں گی
حساب لوں گی تری کج ادائی کا اکثر
کبھی وفا کو تری بے حساب لکھوں گی
بلند پرچم انسانیت رہے جس میں
میں دور نو کا وہ اعلیٰ نصاب لکھوں گی
ہزار مجھ کو ملامت کا سامنا ہو مگر
عذاب زیست کو کار ثواب لکھوں گی
جو میرے بعد پڑھی جائے ایک مدت تک
میں حسن و عشق کی ایسی کتاب لکھوں گی