دریاؤں میں رہتے ہوئے پیاسا تو نہیں ہوں
دریاؤں میں رہتے ہوئے پیاسا تو نہیں ہوں
پیاسا جو ہے مدت سے وہ صحرا تو نہیں ہوں
کیا جانئے دنیا میں تری ہوں کہ نہیں بھی
رہتے ہوئے موجود میں کھویا تو نہیں ہوں
وہ ساتھ مرے چاند ستارا ہے فلک ہر
اے دوست شب ہجر میں تنہا تو نہیں ہوں
تم وہم و گماں جان کے انجان نہ ہونا
اک ٹھوس حقیقت ہوں میں دھوکا تو نہیں ہوں
چاہے تو وہ ساحل سے کرے ایک اشارا
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
تھا فیصلہ اس ترک وفاداری کا باہم
تم بھول گئے میں تمہیں بھولا تو نہیں ہوں
حیرت سے بھلا کیوں مجھے تکتا ہے زمانہ
اے پردۂ افلاک تماشا تو نہیں ہوں