نہیں ساقی کا ساغر کا قمر کا

نہیں ساقی کا ساغر کا قمر کا
سہارا چاہیے تیری نظر کا


مسافر کیوں نہ رستہ بھول جائیں
اشارہ مل گیا شمس و قمر کا


کبھی پرواز پر تھا زعم ہم کو
بھروسا اب نہیں ہے بال و پر کا


مجھے تو چاک کی گردش نے ڈھالا
ہوا ہے نام سارا کوزہ گر کا


بیاں کب روشنی میں کر سکوں گی
جو قصہ مختصر ہے رات بھر کا