یہ دنیا ہر قدم پر آدمی کا امتحاں کیوں ہے
یہ دنیا ہر قدم پر آدمی کا امتحاں کیوں ہے
جدا ہر آدمی سے آدمی کا کارواں کیوں ہے
محبت ساری دنیا کے لئے روح رواں کیوں ہے
سیاست کے فلک پر آج نفرت کا دھواں کیوں ہے
ہزاروں جان دے کر جس نے حاصل کی ہے آزادی
تماشا بن کے دنیا میں وہی ہندوستاں کیوں ہے
ہوا تو مختلف ہے نہ موافق بھی مخالف بھی
معطر ان ہواؤں سے ہمارا جسم و جاں کیوں ہے
جسے بھی دیکھیے وہ لوٹنے کے فن میں ہے ماہر
ہوس کی غرض میں یہ زندگی کا کارواں کیوں ہے
جوانی جس نے بچوں کے لئے قربان کر ڈالی
بڑھاپا اس کا بچوں کے لئے بار گراں کیوں ہے
کسی معصوم کی ایڑی سے جب چشمہ ابلتا ہے
سونامی کیسے آتی ہے منیبؔ آتش فشاں کیوں ہے