ہے کٹھن راہ تو گر گر کے سنبھالنا ہوگا

ہے کٹھن راہ تو گر گر کے سنبھالنا ہوگا
اپنی منزل کی طرف دوڑ کے چلنا ہوگا


اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے
خواب غفلت سے کسی طور نکلنا ہوگا


تیز آندھی میں جلانا ہے اگر اپنا چراغ
رخ ہواؤں کا بہ ہر حال بدلنا ہوگا


بن کے الفت کی گھٹا تم یہاں برسو ورنہ
آگ نفرت کی جو بھڑکے گی تو جلنا ہوگا


چپ رہو گے تو نہ مل پائے گا انصاف کبھی
اس کو پانے کے لیے تم کو مچلنا ہوگا


زندگی مانگ رہی ہے جو امنگوں کی دلیل
تم کو دریا کی طرح پھر سے ابلنا ہوگا


تم جو چاہو کہ اجالا ہو ترے دم سے منیبؔ
بن کے ایک شمع یہاں تجھ کو پگھلنا ہوگا