جس دل میں ہو جوش جوانی کا پہلو میں وہ اک پل کیا ٹھہرے
جس دل میں ہو جوش جوانی کا پہلو میں وہ اک پل کیا ٹھہرے
جب دل ہی نہیں ہو قابو میں تو سینے پہ آنچل کیا ٹھہرے
ہوتا ہے جب سرخی کا اثر اڑ جاتا ہے رنگ سیاہی کا
جس آنکھ میں لالی دوڑ گئی اس آنکھ میں کاجل کیا ٹھہرے
شیشے میں دیکھ وہ اپنی ادا جب شوخ حسینہ شرمائے
ایسے میں پسینہ آ جائے تو مانگ پہ صندل کیا ٹھہرے
ہو لاکھ بھی زلفوں کا سایہ چہرہ وہ مگر کب چھپتا ہے
جب چاند چمکنے پر آئے تو سامنے بادل کیا ٹھہرے
رستہ چلنا اٹھلانا خود پاؤں سے پاؤں کا ٹکرانا
جب چال ہو ایسی متوالی تو پاؤں میں پائل کیا ٹھہرے