یہاں تو شہر سے دیوار و در ہی غائب ہیں (ردیف .. ا)
یہاں تو شہر سے دیوار و در ہی غائب ہیں
چھتوں کے بعد مکانوں کو لے اڑی ہے ہوا
تمام شہر تھا سڑکوں پہ آج رات گئے
سنا ہے پھر سے جوانوں کو لے اڑی ہے ہوا
سفر ہے رات کا صحرا سے واپسی کیسی
تمہارے سارے نشانوں کو لے اڑی ہے ہوا
چلے گی وقت کی آندھی تو کس کو بخشے گی
نہ جانے کتنے زمانوں کو لے اڑی ہے ہوا
رہا نہ اب وہ لب جو رہا نہ مے خانہ
ہمارے سارے ٹھکانوں کو لے اڑی ہے ہوا
چلو وہ وصل کا وعدہ بھی کالعدم ٹھہرا
تمہارے سارے بہانوں کو لے اڑی ہے ہوا
ہوا کے دوش پہ اڑتے تو ہیں پرندے پر
نظر کے سامنے دانوں کو لے اڑی ہے ہوا
پڑے ہیں تیر یہاں غازیوں کے ترکش میں
اندھیری شب میں کمانوں کو لے اڑی ہے ہوا
غلط تھے سارے وہ میزاں فریب تخمینے
ہمارے سارے گمانوں کو لے اڑی ہے ہوا
رکھے تھے کس نے وہ اوراق طاقچے پہ ایازؔ
وہ چاہتوں کے فسانوں کو لے اڑی ہے ہوا