چڑھتا دریا اتر گیا میں بھی
چڑھتا دریا اتر گیا میں بھی
سر سے پانی گزر گیا میں بھی
رات کی تو فصیل اونچی تھی
پار کیسے اتر گیا میں بھی
اس میں تو بھی تو ٹوٹ پھوٹ گیا
ریزہ ریزہ بکھر گیا میں بھی
پانچ بجتے ہی لوٹ آتا ہوں
اب کے شاید سدھر گیا میں بھی
اس چوراہے پہ بھیڑ اتنی تھی
تو نہ آیا تو گھر گیا میں بھی
تو نے دیکھا مجھے تو گھبرایا
اپنے سائے سے ڈر گیا میں بھی
دن میں ثابت تھا اور سالم بھی
شام ہوتے بکھر گیا میں بھی