اندھیری رات نوحے گا رہی ہے
اندھیری رات نوحے گا رہی ہے
خموشی شہر بھر میں چھا رہی ہے
زمیں پر خون اتنا بہہ گیا ہے
ہواؤں میں بھی خوشبو آ رہی ہے
ہری وادی کا افسوں ٹوٹتا ہے
خزاں کچھ رنگ وہ دکھلا رہی ہے
کئی لاشوں کی فصلیں کٹ چکی ہیں
کہ دھرتی خون میں نہلا رہی ہے
گھروں میں شور بھی اب تھم گیا ہے
گلی سے فوج بھی اب جا رہی ہے