ٹکڑے ٹکڑے جب بٹ جاؤں شام گئے

ٹکڑے ٹکڑے جب بٹ جاؤں شام گئے
دن کا سارا قرض چکاؤں شام گئے


گھر سے چلتے میں نے اکثر سوچا ہے
شاید ہی میں لوٹ کے آؤں شام گئے


سارا دن اس الجھن ہی میں بیت گیا
کیسے اپنا دل بہلاؤں شام گئے


دھوپ کے مارے لوگوں کو بھی صحرا میں
مل جاتی ہے پیڑ کی چھاؤں شام گئے


کس کاندھے پر اشک بہاؤں شام گئے
کس کو اپنے زخم دکھاؤں شام گئے


پر پھیلائے مرغا بولا میر ایازؔ
جاگا میرے من کا گاؤں شام گئے