یادوں کے دریچوں سے بیتے ایام کی خوشبو آتی ہے
یادوں کے دریچوں سے بیتے ایام کی خوشبو آتی ہے
تسکین کے جھونکے آتے ہیں آرام کی خوشبو آتی ہے
کچھ بول کہ مستقبل کی گرہ ہم بے خبروں پہ کھل جائے
ساقی تری میٹھی باتوں سے الہام کی خوشبو آتی ہے
کس گلشن غیر ارضی میں مجھے رہوار صبا لے آیا ہے
ہر سمت سے مجھ کو ایک گل بے نام کی خوشبو آتی ہے
اک بار ترے آنے سے کبھی گلبن کی طرح جو مہکا تھا
ہر گوشۂ شب سے آج اسی ہنگام کی خوشبو آتی ہے