یادوں کا اک دیپک دل میں بیٹھ کے روز جلاتا ہوں
یادوں کا اک دیپک دل میں بیٹھ کے روز جلاتا ہوں
دیکھ کے تیری تصویروں کو روتا ہنستا گاتا ہوں
مومن ایسا ہوں کہ پہلے جام پہ جام لگاتا ہوں
جا کے پھر سجدے میں رب کو اپنا حال سناتا ہوں
ہجر نے تیرے حالت میری ایسی کر دی ہے کے اب
دو دن سویا رہتا ہوں اور دو دن کام پہ جاتا ہوں
دریا سورج چاند ستارے قوس و قزح سب اپنی جگہ
لیکن وہ اک لمحہ جب میں تجھ سے ہاتھ ملاتا ہوں
آدھی شب کا سناٹا ہے اس میں جگنو اور اک جھیل
ایسے منظر دیکھ کے اکثر خود میں گم ہو جاتا ہوں
عشق وہی سچا ہے جس میں منزل کی تمثیل نہ ہو
ایسے ویسے جملے کہہ کر خود کو میں بہلاتا ہوں