یاد اس کی ہے بہت جی مرا بہلانے کو

یاد اس کی ہے بہت جی مرا بہلانے کو
جس نے افسانہ بنایا مرے افسانے کو


شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی
دل نے جب چھیڑ دیا درد کے افسانے کو


آ گئی یاد کسی کی نگہ مست مجھے
ابھی ہونٹوں سے لگایا ہی تھا پیمانے کو


اب نہ ساغر کی ہوس ہے نہ تمنائے بہار
تیرے دامن کی ہوا مل گئی دیوانے کو


لذت تشنہ لبی یاد جو آئی شارقؔ
رکھ دیا میں نے اٹھا کر وہیں پیمانے کو