ترے بغیر ہے اب یہ مری خوشی اے دوست

ترے بغیر ہے اب یہ مری خوشی اے دوست
خوشی ملے نہ مجھے عمر بھر کبھی اے دوست


ترا خیال تھا مقصود زندگی اپنا
تری طلب تھی اندھیرے میں روشنی اے دوست


اب اس کے بعد کسے آرزو ہے جینے کی
تری نگاہ کرم تک تھی زندگی اے دوست


تری جدائی میں اکثر یہ سوچتا ہوں میں
نہ جانے کیسے کٹے گی یہ زندگی اے دوست


جو تجھ کو ڈھونڈھنا چاہا تو کیا گناہ کیا
تری تلاش کوئی جرم تو نہ تھی اے دوست


ہنسا بھی ہوں میں بہت اس حیات فانی میں
اب آئے گی نہ لبوں پر کبھی ہنسی اے دوست


بڑا ستم ہے ملے تجھ سے تیرے شارقؔ کو
ترے جمال سے محروم زندگی اے دوست