اجازت

کاش اس دل کی طرح کوئی مکاں بھی ہوتا
اپنی ہستی کی طرح اپنا جہاں بھی ہوتا
ظلمت شب میں تجلی کا گماں بھی ہوتا
میرے ہونٹوں پہ مرا طرز بیاں بھی ہوتا
میری یادوں کو مری جان بسر جانے دو
بات جو دل پہ گزرتی ہے گزر جانے دو
آج جب ترک تعلق کا خیال آیا ہے
ایسا لگتا ہے محبت کو زوال آیا ہے
اتنی حسرت بھری نظروں سے نہ دیکھو مجھ کو
میری محبوب سر راہ نہ روکو مجھ کو
داغ جو دل پہ لگا ہے اب اسے صاف کرو
میں طلب گار معافی ہوں کچھ انصاف کرو
اپنے دن رات کسی طرح بسر کر لوں گا
زندگی جیسے بھی گزرے گی گزر کر لوں گا
میں تری ذات سے اے دوست گلہ مند نہیں
تو بہ ہر حال میرے عشق کی پابند نہیں
عہد و پیمان سبھی توڑ کے جا سکتی ہو
میری محبوب مجھے چھوڑ کے جا سکتی ہو